دنیا بھر میں اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی، ٹیکنالوجی اور عوام دوست اقدامات کے لیے مشہور دبئی پولیس نے ایک منفرد اور دل کو چھو لینے والا اقدام کیا ہے۔
تین سالہ بچی سارہ نبیل کی پولیس افسر بننے کی معصوم خواہش کو دبئی پولیس نے حقیقت میں بدل دیا۔
یہ کہانی صرف ایک بچے کے خواب کی تعبیر نہیں بلکہ دبئی پولیس کے اس وژن کی نمائندگی بھی کرتی ہے جس کا مقصد معاشرتی ہم آہنگی، انسانی ہمدردی اور عوامی تعلقات کو فروغ دینا ہے۔
ننھی سارہ کا خواب کیسے حقیقت بنا؟
سارہ نبیل ایک مقامی اسپتال میں کمیونٹی ایونٹ کے دوران اپنے والدین کے ساتھ شریک تھی۔
اسی تقریب میں جب بچوں سے ان کے خواب پوچھے گئے تو ننھی سارہ نے بلا جھجک کہا:
“میں دبئی پولیس آفیسر بننا چاہتی ہوں!”
یہ سن کر ایونٹ کے منتظمین نے اس خواہش کو نوٹ کیا اور چند گھنٹوں کے اندر دبئی پولیس کے “اسکول سیکیورٹی انیشی ایٹو” کے ذریعے اسے حقیقت میں بدلنے کی تیاری شروع کر دی۔
دبئی پولیس ہیڈکوارٹرز میں پرتپاک استقبال
اگلے ہی دن، سارہ نبیل اور اس کے خاندان کو دبئی پولیس ہیڈکوارٹرز میں مدعو کیا گیا۔
جہاں انہیں افسران کی جانب سے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا گیا۔
اس موقع پر کیپٹن ماجد بن سعد الکعبی (سربراہ اسکول سیکیورٹی انیشی ایٹو ٹیم) اور لیفٹیننٹ مریم عیسیٰ (ڈپٹی ہیڈ) نے سارہ سے ملاقات کی۔
دبئی پولیس کے افسران نے ننھی سارہ کو خصوصی وردی پہنائی — جو اس کے قد کے مطابق خاص طور پر تیار کی گئی تھی۔
تحفے، تصویریں اور لگژری پٹرولنگ گاڑی کا ٹور
یہ دن سارہ اور اس کے والدین کے لیے ناقابلِ فراموش لمحہ بن گیا۔
پولیس ٹیم نے سارہ کو تحائف پیش کیے، یادگار تصاویر بنوائیں اور اسے ایک لگژری پولیس پٹرولنگ گاڑی میں شہر کا فیلڈ ٹور بھی کرایا۔
سارہ خوشی سے مسکراتی رہی، اور جب وہ پولیس گاڑی میں بیٹھی تو اس کے والدین کی آنکھوں میں فخر کے آنسو جھلکنے لگے۔
یہ مناظر نہ صرف دل کو چھو لینے والے تھے بلکہ دبئی پولیس کے انسانی پہلو کی واضح جھلک بھی پیش کرتے ہیں۔
دبئی پولیس کا وژن: معاشرتی تعلقات اور انسانی خدمت
کیپٹن ماجد بن سعد الکعبی کے مطابق یہ اقدام دبئی پولیس کے اس وژن کا حصہ ہے جو عوام کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا:
“ہم چاہتے ہیں کہ بچے پولیس کو صرف ایک قانون نافذ کرنے والا ادارہ نہ سمجھیں بلکہ ایک محافظ اور دوست کے طور پر دیکھیں۔”
دبئی پولیس کا “اسکول سیکیورٹی انیشی ایٹو” پروگرام دراصل اسی سوچ کا تسلسل ہے، جس کے ذریعے طلباء، والدین اور اساتذہ میں قانون کی پاسداری اور شہری ذمہ داری کے شعور کو بڑھایا جا رہا ہے۔
کمیونٹی انگیجمنٹ کا منفرد ماڈل
دبئی پولیس نہ صرف سیکیورٹی کے حوالے سے دنیا میں مثال ہے بلکہ کمیونٹی انگیجمنٹ کے میدان میں بھی پیش پیش ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں ادارے نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جنہوں نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی — جیسے:
- بچوں کے لیے “منی پولیس آفیسر” پروگرام
- بزرگ شہریوں کے لیے “سیفٹی فرینڈ” مہم
- نوجوانوں کے لیے “ڈیجیٹل سیفٹی ورکشاپس”
- اور خواتین کے لیے “سیف کمیونٹی پروجیکٹس”
ان تمام کا مقصد عوام کو پولیس کے قریب لانا اور معاشرے میں مثبت رویے فروغ دینا ہے۔
دبئی پولیس نے سارہ نبیل کی خواہش پوری کر کے ثابت کیا کہ ان کے لیے ہر شہری کی خوشی اہم ہے — چاہے وہ تین سالہ بچی ہی کیوں نہ ہو۔
عوامی ردعمل: دبئی پولیس کو خراجِ تحسین
سوشل میڈیا پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
ہزاروں صارفین نے دبئی پولیس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی بہترین پولیس فورسز میں سے ایک ہے جو صرف قانون نہیں بلکہ دلوں پر بھی راج کرتی ہے۔
ایک صارف نے لکھا:
“یہی اصل سیکیورٹی فورس ہے — جو انسانیت کی حفاظت بھی کرتی ہے اور خواب بھی پورے کرتی ہے۔”
کئی والدین نے کہا کہ ایسے اقدامات بچوں میں اعتماد اور حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دیتے ہیں۔
دبئی پولیس کے اقدامات کی عالمی پہچان
دبئی پولیس کو عالمی سطح پر بھی “کمیونٹی فرینڈلی پولیس فورس” کے طور پر سراہا جاتا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور کئی بین الاقوامی سیکیورٹی اداروں نے اس کے سوشل ویلفیئر پروگرامز کو جدید پولیسنگ کا مثالی ماڈل قرار دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق، دبئی پولیس کی یہ پالیسی اس بات کا ثبوت ہے کہ امن صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ دلوں کو جیتنے سے قائم ہوتا ہے۔
ننھی سارہ کا پیغام
اس موقع پر سارہ کے والد نے کہا:
“ہم شکر گزار ہیں کہ دبئی پولیس نے ہماری بیٹی کی خواہش پوری کر کے اسے زندگی کا سب سے خوبصورت دن دیا۔”
ننھی سارہ نے اپنی چھوٹی سی آواز میں کہا:
“میں بڑی ہو کر دبئی پولیس آفیسر بنوں گی!”
یہ معصوم جملہ سن کر وہاں موجود ہر شخص کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
انسانیت اور امید کا پیغام
دبئی پولیس کا یہ اقدام دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک سبق ہے۔
سارہ نبیل کی معصوم خواہش پوری کر کے دبئی پولیس نے ثابت کر دیا کہ ایک چھوٹا سا عمل بھی معاشرے میں بڑی مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔
یہ کہانی امید، محبت اور انسانی رشتوں کی مضبوطی کی خوبصورت مثال ہے — اور اس بات کی علامت بھی کہ ایک ادارہ تبھی عظیم بنتا ہے جب وہ انسانیت کو مقدم رکھتا ہے۔
دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اے آئی کوریڈور، پاسپورٹ کے بغیر سفر کا نیا دور










Comments 1