ایف بی آر کا بڑا اقدام، جیولرز پر شکنجہ کس لیا – 60 ہزار جیولرز کا ڈیٹا، ہزاروں کو نوٹس جاری
پاکستان میں ٹیکس نظام کو مؤثر بنانے اور قومی خزانے میں آمدن بڑھانے کی کوششوں کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے جیولری کے کاروبار سے منسلک افراد پر سخت نظر رکھنی شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں ایف بی آر نے ملک بھر سے 60 ہزار سے زائد جیولرز کا ڈیٹا اکٹھا کر لیا ہے، جس کے بعد اُن کے خلاف مرحلہ وار کارروائی کا آغاز ہو چکا ہے۔
رجسٹرڈ جیولرز کی کم تعداد: تشویشناک صورتحال
ذرائع کے مطابق، ایف بی آر کے ڈیٹا انیلیسس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان 60 ہزار جیولرز میں سے صرف 21 ہزار دکاندار ہی ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، اور ان میں سے بھی محض 10 ہزار 524 افراد نے باقاعدہ ٹیکس ریٹرن فائل کی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ جیولری کا کاروبار کرنے والے ایک بڑی تعداد میں لوگ یا تو ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں یا اپنی آمدن کو چھپا کر معمولی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
یہ عمل نہ صرف ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ قومی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایف بی آر کا مؤقف ہے کہ اس طرح کے رویے ٹیکس نیٹ کو محدود کرتے ہیں اور ریاست کی مالی خودمختاری پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
سونے کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور کاروباری سرگرمیاں
حال ہی میں سونے کی قیمتوں میں کمی کے بعد دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس سے جیولری مارکیٹ میں خریدو فروخت ایک بار پھر سرگرم ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں ایف بی آر کی کارروائی نہ صرف بروقت ہے بلکہ اہم بھی، کیونکہ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب جیولرز کی اصل آمدن اور لین دین کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آمدن کم ظاہر کرنا، ٹیکس بچانے کا عام طریقہ
ایف بی آر ذرائع کے مطابق، جیولرز کی ایک بڑی تعداد اپنی آمدنی کم ظاہر کر کے ٹیکس بچانے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔ کئی دکاندار ایسے ہیں جن کی دکانیں بڑے کمرشل علاقوں میں قائم ہیں، جن کے گاہکوں میں اشرافیہ اور اعلیٰ طبقہ شامل ہے، اور جن کی یومیہ فروخت لاکھوں میں ہے، مگر ان کا ظاہر کردہ سالانہ منافع یا آمدنی نہایت معمولی ہے۔
ایف بی آر نے اس عمل کو روکنے کے لیے جدید ڈیٹا انیلیٹکس، بینک ٹرانزیکشنز، بجلی و گیس کے بل، جائیداد کی معلومات، اور دیگر معاشی سرگرمیوں کی مدد سے جیولرز کی اصل آمدن کا تخمینہ لگانا شروع کر دیا ہے۔
پہلے مرحلے میں پنجاب کے 900 جیولرز کی چھان بین
ابتدائی مرحلے میں ایف بی آر نے پنجاب کے 900 جیولرز کی فہرست مرتب کی ہے جن کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ ان دکانداروں کا تعلق لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، اور ملتان جیسے بڑے شہروں سے ہے۔
ایف بی آر کے مطابق ان دکانوں کا طرز زندگی، خرید و فروخت، دکان کا سائز، اور مقام ایسے ہیں جو کہ ان کی ظاہر کردہ آمدنی سے میل نہیں کھاتے۔ اسی بنیاد پر انہیں نوٹسز جاری کیے جا رہے ہیں تاکہ ان سے وضاحت طلب کی جا سکے کہ ان کے مالی گوشوارے حقیقت کے برعکس کیوں ہیں۔
ایف بی آر کا مؤقف: "ایمانداری سے ٹیکس دینا ہوگا”
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی ہدایت پر تمام شعبہ جات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، تاکہ قومی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ:
"ہم کسی تاجر یا صنعت کار کو بلاوجہ نوٹس نہیں بھیج رہے، بلکہ وہ لوگ جو اپنے اصل آمدنی چھپا کر قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ان کے خلاف مکمل قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اگر ہر فرد ایمانداری سے اپنا جائز ٹیکس دے گا تو ملک خود کفیل ہو سکے گا۔”
جیولری سیکٹر: ایک غیر منظم مگر منافع بخش صنعت
پاکستان میں جیولری کا کاروبار ایک منافع بخش مگر غیر منظم شعبہ سمجھا جاتا ہے۔ لاکھوں روپے کی روزانہ لین دین کے باوجود، اس شعبے کے بیشتر افراد ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں۔ چونکہ یہ کاروبار زیادہ تر نقدی پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے اس میں آمدن چھپانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔
حکام کے مطابق، ایف بی آر کی نئی پالیسی کا مقصد صرف جرمانے یا سزا دینا نہیں، بلکہ اس شعبے کو دستاویزی معیشت کا حصہ بنانا ہے تاکہ مستقبل میں حکومت کی آمدنی بڑھے، اور ٹیکس کا بوجھ چند افراد کے بجائے سب پر مساوی طور پر تقسیم ہو۔
ٹیکنالوجی کا استعمال اور مستقبل کی حکمت عملی
ایف بی آر نے حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور دیا ہے، جیسے:
ڈیجیٹل انوائسنگ
بایومیٹرک ویریفیکیشن
نان-فائلرز کی شناخت
ریئل ٹائم ڈیٹا اینالیسز
ان اقدامات کی بدولت نہ صرف جیولرز بلکہ دیگر کاروباری طبقات پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے تاکہ ٹیکس چوری کو روکا جا سکے۔
تاجر برادری کا ردعمل
جیولرز کی تاجر تنظیموں نے ایف بی آر کی بعض پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ:
انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے سے قبل سہولتیں اور رہنمائی فراہم کی جائے؛
فائلنگ کا عمل آسان اور سہل بنایا جائے؛
چھوٹے دکانداروں پر بڑے ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔
تاہم، ایف بی آر کا کہنا ہے کہ وہ تمام کاروباری افراد کو مکمل قانونی راستے اور موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ازخود ٹیکس نیٹ میں آئیں اور اپنی مالی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا کریں۔
ریاست اور عوام کی شراکت ضروری
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر کاروباری طبقہ ایمانداری سے ٹیکس دے تو نہ صرف ملکی معیشت مضبوط ہو سکتی ہے بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بھی بہتر طریقے سے مکمل ہو سکتے ہیں۔
ایف بی آر کی(fbr jewelry) موجودہ حکمت عملی اگر شفاف، منصفانہ اور متوازن انداز میں نافذ کی جائے تو جیولری کے شعبے کو باقاعدہ نظام میں لا کر ایک بڑی معاشی تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔












Comments 2