وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دے دی، وزارت داخلہ متحرک
وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف بڑا قدم اٹھاتے ہوئے تنظیم پر باضابطہ طور پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے کابینہ اجلاس میں ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی گئی۔
یہ فیصلہ گزشتہ ہفتے پنجاب حکومت کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھیجے گئے ریفرنس کے بعد کیا گیا۔
کابینہ اجلاس کی تفصیلات
وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں ملک کی داخلی سلامتی، امن و امان کی صورتحال اور مختلف انتظامی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے متفقہ طور پر ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی اور وزارت داخلہ کو ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی۔
یہ پابندی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 11-B(1) کے تحت لگائی گئی ہے۔
پنجاب حکومت کا ریفرنس
ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت نے تقریباً ایک ہفتہ قبل وزارت داخلہ کو ایک تفصیلی ریفرنس بھجوایا تھا، جس میں تحریک لبیک پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔
ریفرنس میں کہا گیا کہ ٹی ایل پی کے احتجاجی مظاہروں کے دوران شہری املاک کو نقصان پہنچایا گیا، پولیس اہلکاروں پر حملے کیے گئے اور عوامی جان و مال کو خطرے میں ڈالا گیا۔
یہ ریفرنس ہی وفاقی سطح پر ٹی ایل پی پر پابندی کے فیصلے کی بنیاد بنا۔
وزارت داخلہ کی سمری
آج کے اجلاس میں وزارت داخلہ کی جانب سے پیش کردہ سمری میں بتایا گیا کہ تنظیم نفرت انگیز تقاریر، فرقہ وارانہ تشدد اور ہتھیار سازی میں ملوث پائی گئی ہے۔
سمری کے مطابق، تنظیم کے خلاف کارروائی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ممکن ہے تاکہ ریاستی عملداری کو برقرار رکھا جا سکے۔
سمری میں واضح طور پر کہا گیا کہ ٹی ایل پی پر پابندی عوامی سلامتی اور قومی مفاد میں ضروری ہے۔

چارج شیٹ کی تفصیلات
حکومت کی جانب سے جاری کردہ چارج شیٹ کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کئی سنگین نوعیت کی سرگرمیوں میں ملوث پائی گئی، جن میں شامل ہیں:
- اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم اور تشدد
- مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر
- پولیس اہلکاروں پر حملے اور ان کی شہادتیں
- نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا
- عوامی اجتماعات میں ہتھیاروں کا استعمال
چارج شیٹ میں بتایا گیا کہ تنظیم کے حالیہ احتجاج میں ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ 47 زخمی ہوئے، جن میں سے کچھ اہلکار عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے۔
حالیہ مظاہروں کا پس منظر
گزشتہ چند ہفتوں میں ٹی ایل پی کے کارکنان نے مختلف شہروں میں احتجاج کیا جس کے دوران تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
مظاہرین نے سڑکیں بلاک کیں، گاڑیاں جلائیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کیے۔
ان مظاہروں کے نتیجے میں متعدد شہری زخمی ہوئے اور امن و امان کی صورتحال بگڑ گئی۔
اسی بنیاد پر حکومت نے فیصلہ کیا کہ ٹی ایل پی پر پابندی ناگزیر ہو چکی ہے۔
وفاقی حکومت کا مؤقف

وفاقی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کسی بھی انتہا پسند گروہ کو قانون سے بالاتر نہیں ہونے دے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ “حکومت کا فیصلہ عوام کے جان و مال کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے، اور یہ اقدام مکمل قانونی دائرے میں ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی تنظیم کی سرگرمیاں ملک کے امن کے لیے خطرہ بنیں گی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ٹی ایل پی کی سرگرمیوں کا جائزہ
ٹی ایل پی کے قیام کے بعد سے تنظیم نے کئی مرتبہ احتجاجی تحریکیں چلائیں جن میں اکثر پرتشدد واقعات پیش آئے۔
تحریک کے کارکنان مختلف مواقع پر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے جھڑپوں میں ملوث رہے۔
یہی عوامل حکومت کے اس فیصلے کا پس منظر بنے کہ ٹی ایل پی پر پابندی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔
قانونی پہلو
ماہرین قانون کے مطابق، حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت درست قانونی راستہ اپنایا ہے۔
سیکشن 11-B(1) کے مطابق، اگر کوئی تنظیم ریاست کے خلاف تشدد، نفرت یا انتشار کو ہوا دیتی ہے تو اسے کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔
اب وزارت داخلہ پابندی کی سفارش کو نوٹیفکیشن کی شکل میں جاری کرے گی جس کے بعد تنظیم کے اثاثے منجمد اور دفاتر سیل کیے جا سکتے ہیں۔
ردعمل
ٹی ایل پی کی جانب سے ابھی تک کسی باضابطہ ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔
تاہم، بعض ذرائع کے مطابق تنظیم کے رہنماؤں نے قانونی چارہ جوئی پر غور شروع کر دیا ہے۔
سوشل میڈیا پر عوام کی بڑی تعداد نے ٹی ایل پی پر پابندی کے فیصلے کو سراہا، جبکہ کچھ حلقوں نے اسے اظہارِ رائے پر قدغن قرار دیا۔
مستقبل کی صورتحال
پابندی کے بعد وزارت داخلہ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے تنظیم کی سرگرمیوں پر مکمل نگرانی کریں گے۔
ممکنہ احتجاج یا ردعمل کے خدشے کے پیش نظر سیکیورٹی اداروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔
ٹی ایل پی احتجاج شدت اختیار کر گیا،2 کارکن جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی
ٹی ایل پی پر پابندی پاکستان کی داخلی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم موڑ ہے۔
یہ فیصلہ حکومت کے اس عزم کو ظاہر کرتا ہے کہ انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کے لیے ملک میں کوئی گنجائش نہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ دنوں میں اس فیصلے کے قانونی اور سیاسی اثرات کس حد تک نمایاں ہوتے ہیں۔