وزیراعظم کی مصروفیات کے باعث وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی، اتحادی جماعتوں سے مشاورت مکمل
وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی — 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت جاری
وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی مصروفیات کے باعث آج ہونے والا اہم اجلاس مؤخر کر دیا گیا۔
اجلاس ملتوی ہونے کی وجوہات
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف آج کئی اہم ملاقاتوں اور سرکاری امور میں مصروف تھے، جس کے باعث وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں ملکی سیاسی صورتحال اور آئینی ترمیم سے متعلق اہم فیصلے متوقع تھے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جانی تھی، تاہم اب یہ منظوری آئندہ کابینہ اجلاس میں دی جائے گی۔
27ویں آئینی ترمیم پر پسِ منظر
ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کو پہلے ہی اعتماد میں لے لیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ ملاقاتوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے تفصیلی مشاورت کی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے وفد سے ملاقات میں وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ بلدیاتی اختیارات سے متعلق تجاویز کو 27ویں آئینی ترمیم میں شامل کیا جائے گا۔ اس یقین دہانی کے بعد ایم کیو ایم نے بھی ترمیم کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
اتحادی جماعتوں کا مؤقف
ایم کیو ایم کے مطابق، ان کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز میں شہری حکومتوں کے اختیارات میں اضافہ، مالی وسائل کی تقسیم اور مقامی حکومتوں کے نظام کو مضبوط بنانا شامل ہے۔

دوسری جانب، پاکستان پیپلز پارٹی نے 27ویں آئینی ترمیم کے چند نکات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی نے صرف آرٹیکل 243 میں مجوزہ تبدیلی کو قبول کیا ہے، جبکہ دیگر تمام نکات مسترد کر دیے گئے۔
بلاول بھٹو زرداری کا ردِعمل
پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (CEC) کے اجلاس کے بعد چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

“پیپلز پارٹی صوبائی حصے سے متعلق شق کو تسلیم نہیں کرتی۔ ہم کسی بھی صورت میں ایسے بل کی حمایت نہیں کر سکتے جو صوبائی خودمختاری کے اصولوں سے متصادم ہو۔”
بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ این ایف سی فارمولے میں تبدیلی سمیت 27ویں آئینی ترمیم کے بیشتر نکات پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہیں۔
سیاسی ماحول میں گرما گرمی
وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ملتوی ہونے کے بعد سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی ہونا دراصل اتحادی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے وقت حاصل کرنے کی کوشش ہے۔
کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت موجودہ حالات میں کسی بھی متنازع آئینی ترمیم کو جلد بازی میں منظور کرنے کے بجائے وسیع تر مشاورت چاہتی ہے۔
آئینی ماہرین کی رائے
آئینی ماہرین کے مطابق، 27ویں آئینی ترمیم کا تعلق صوبوں کے مالی اختیارات اور بلدیاتی نظام سے ہے۔
اگرچہ یہ ترمیم حکومت کی وفاقی پالیسی کو مضبوط بنانے کی کوشش ہے، لیکن صوبوں میں اسے مرکزیت بڑھانے کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سینئر قانون دان علی رضا نے کہا:
“یہ خوش آئند بات ہے کہ حکومت اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چل رہی ہے۔ تاہم وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتفاقِ رائے ابھی مکمل نہیں ہو سکا۔”
اگلا اجلاس کب متوقع ہے؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف آئندہ ہفتے ایک نیا شیڈول جاری کریں گے، جس میں وفاقی کابینہ کا اجلاس دوبارہ بلایا جائے گا۔
اس اجلاس میں آئینی ترمیم کے علاوہ معیشت، توانائی بحران، اور ترقیاتی منصوبوں پر بھی غور متوقع ہے۔

اتحادی حکومت میں رابطے
ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور اتحادی جماعتوں کے درمیان مسلسل رابطے جاری ہیں۔
گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں وفاقی وزراء نے وزیراعظم کو 27ویں آئینی ترمیم کے مختلف نکات پر اپنی تجاویز پیش کیں۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام اختلافی نکات کو آئندہ اجلاس سے قبل طے کر لیا جائے تاکہ بل منظوری کے لیے پیش کیا جا سکے۔
عوامی ردِعمل اور اپوزیشن کا مؤقف
اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے اقدامات کو غیر شفاف قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان نے کہا کہ حکومت آئینی ترامیم کو اتحادی دباؤ میں لا رہی ہے، جبکہ عوامی مسائل پسِ پشت ڈال دیے گئے ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا:
“ایک ایسے وقت میں جب ملک اقتصادی بحران سے دوچار ہے، حکومت کو آئینی ترمیم کے بجائے مہنگائی اور روزگار پر توجہ دینی چاہیے۔”
سپریم کورٹ میں 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف آئینی جنگ شروع
مجموعی طور پر، وفاقی کابینہ کا اجلاس ملتوی ہونے کے پیچھے سیاسی اور انتظامی وجوہات دونوں کارفرما نظر آتی ہیں۔
حکومت اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی پر گامزن ہے، اور 27ویں آئینی ترمیم پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق آنے والے دنوں میں حکومتی فیصلے پاکستان کی پارلیمانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔










Comments 1