قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز کیوں ضروری ہیں؟ ہیڈ کوچ طاہر زمان کی وضاحت
پاکستانی ہاکی ایک بار پھر مشکل دور سے گزر رہی ہے اور اس مشکل کو دور کرنے کے لیے پاکستان ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ طاہر زمان نے ایک اہم تجویز پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز وقت کی ضرورت ہیں، خاص طور پر اسٹرنتھ اینڈ کنڈیشنگ اور گول کیپنگ کے شعبوں میں۔
ہاکی میں جدید تقاضے اور قومی ٹیم کی کمی
دنیا کی جدید ہاکی تیزی سے بدل رہی ہے۔ آج کے دور میں ہاکی صرف اسکلز کا کھیل نہیں بلکہ فزیکل فٹنس، اسٹرنتھ، کنڈیشنگ اور گول کیپنگ کی صلاحیتوں پر زیادہ انحصار کرتی ہے۔ پاکستان میں کئی سالوں سے یہ شکایات سامنے آ رہی ہیں کہ کھلاڑی فٹنس کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ اسی کمی کو دور کرنے کے لیے ہیڈ کوچ طاہر زمان نے واضح کیا کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز ناگزیر ہیں۔
اسٹرنتھ اینڈ کنڈیشنگ کوچ کی اہمیت
ہیڈ کوچ کے مطابق کھلاڑیوں کی فٹنس ہی ٹیم کی اصل طاقت ہے۔ اگر کھلاڑی مضبوط اور فٹ نہ ہوں تو وہ عالمی معیار کے ٹورنامنٹس میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے انہوں نے کہا کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز لانا ضروری ہے تاکہ کھلاڑیوں کو فزیکل فٹنس کے جدید تقاضوں کے مطابق تیار کیا جا سکے۔
گول کیپنگ کوچ کی ضرورت
ہاکی میں گول کیپر ٹیم کا محافظ ہوتا ہے۔ مضبوط گول کیپر کی موجودگی میچ کا نتیجہ بدل سکتی ہے۔ طاہر زمان نے کہا کہ پاکستان ہاکی کو خاص طور پر ایک ایسے ماہر غیر ملکی کوچ کی ضرورت ہے جو گول کیپرز کو جدید تکنیک کے مطابق ٹریننگ دے سکے۔ اس وقت دنیا کی بہترین ٹیموں نے اپنی گول کیپنگ کو سائنسی بنیادوں پر بہتر بنایا ہے اور اسی وجہ سے وہ پرو ہاکی لیگ جیسے بڑے ایونٹس میں شاندار کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز کو لازمی قرار دیا جا رہا ہے۔
پرو ہاکی لیگ کی تیاری
ہیڈ کوچ نے کہا کہ پرو ہاکی لیگ ایک آسان ٹورنامنٹ نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کے مشکل ترین مقابلوں میں سے ایک ہے۔ اس میں حصہ لینے والی ٹیموں میں آسٹریلیا، ہالینڈ، جرمنی اور دیگر بڑی ہاکی طاقتیں شامل ہیں۔ ایسی ٹیموں کے خلاف بہتر کارکردگی کے لیے پاکستان کو ان شعبوں میں بھرپور محنت کرنی ہوگی۔ یہی وہ موقع ہے جہاں قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انٹرنیشنل میچز کی ضرورت
طاہر زمان نے مزید کہا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی کوشش ہے کہ پرو ہاکی لیگ سے قبل قومی ٹیم کو زیادہ سے زیادہ انٹرنیشنل میچز کھیلنے کا موقع ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملائیشیا، اسپین اور بنگلادیش جیسی ٹیموں کے خلاف سیریز کے لیے بات چیت جاری ہے۔ ان میچوں میں حصہ لینے سے کھلاڑیوں کو تجربہ بھی ملے گا اور غیر ملکی کوچز کی نگرانی میں وہ اپنی کمزوریوں پر قابو پا سکیں گے۔ اس لیے بار بار یہی بات سامنے آتی ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز کتنے ضروری ہیں۔
کھلاڑیوں پر اثرات
ایک مضبوط فٹنس کوچ اور گول کیپنگ کوچ کھلاڑیوں کو نہ صرف تکنیکی طور پر بہتر کریں گے بلکہ ان کا اعتماد بھی بڑھائیں گے۔ یہ کوچز کھلاڑیوں کو جدید ٹریننگ میتھڈز سے روشناس کرائیں گے، جس سے ٹیم کی مجموعی کارکردگی پر مثبت اثر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ طاہر زمان نے کہا کہ اگر ہم دنیا کی بڑی ٹیموں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہتے ہیں تو قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز کا آنا ناگزیر ہے۔
ماضی کا جائزہ
پاکستان ہاکی کے ماضی میں بھی غیر ملکی کوچز خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 90 کی دہائی میں جب غیر ملکی کوچز نے پاکستانی کھلاڑیوں کو جدید طرز پر ٹرین کیا تو ٹیم نے کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ اگر آج بھی یہی حکمت عملی اپنائی جائے تو ایک بار پھر پاکستان ہاکی کو عالمی سطح پر نمایاں مقام دلایا جا سکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک آزمودہ نسخہ ہیں۔
مستقبل کی حکمت عملی
پاکستان ہاکی فیڈریشن اب اس بات پر غور کر رہی ہے کہ پرو ہاکی لیگ اور آئندہ ٹورنامنٹس کے لیے فوری طور پر غیر ملکی کوچز کو معاہدے کے تحت لایا جائے۔ یہ کوچز ٹیم کی بنیادی خامیوں کو دور کرنے میں مددگار ہوں گے اور کھلاڑیوں کو سخت مقابلوں کے لیے تیار کریں گے۔ اگر یہ منصوبہ عملی شکل اختیار کرتا ہے تو اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز ایک نئے دور کا آغاز کریں گے۔
پاکستان ہاکی ٹیم بھارت نہ بھیجنے کا عندیہ – جونیئر ورلڈ کپ خطرے میں
ہیڈ کوچ طاہر زمان کی رائے بالکل درست ہے کہ قومی ہاکی ٹیم کے لیے غیر ملکی کوچز آج کے دور میں لازمی ہیں۔ فٹنس، گول کیپنگ اور پرو ہاکی لیگ کی تیاری جیسے اہم شعبے ایسے ہیں جہاں پاکستانی کوچز کے ساتھ ساتھ غیر ملکی ماہرین کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان نے عالمی سطح پر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنی ہے تو اسے جدید تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا۔
Comments 1