واشنگٹن میں مسلم سربراہان کا اجلاس: غزہ کے لیے عملی لائحہ عمل یا محض بیانات؟
واشنگٹن میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی میزبانی میں منعقد ہونے والا اعلیٰ سطحی اجلاس اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا جب فلسطین، بالخصوص غزہ میں جاری جنگ کے پس منظر میں کئی مسلم ممالک کے سربراہان ایک میز پر جمع ہوئے۔ اجلاس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف، ترکیہ کے صدر، قطر کے امیر، سعودی ولی عہد، انڈونیشیا، مصر اور متحدہ عرب امارات کے سربراہان نے شرکت کی۔
یہ بیٹھک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب غزہ انسانی بحران کا شکار ہے، ہزاروں فلسطینی شہید، لاکھوں بے گھر اور بنیادی سہولیات سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں عالمی طاقتوں اور مسلم دنیا کا ردعمل خاص اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر جب اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے بھی اب تک کسی موثر حل کی طرف نہیں بڑھ سکے۔
دو طرفہ ملاقاتیں: گرمجوشی یا رسمی تعلقات؟
اجلاس سے قبل وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کی قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی، اردن کے شاہ عبداللہ دوم اور انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو سے غیر رسمی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں گرمجوش مصافحہ، خوشگوار تبادلہ خیال اور بے تکلفانہ گفتگو نے اس امر کی نشاندہی کی کہ مسلم قیادت کم از کم ذاتی تعلقات کی سطح پر ایک دوسرے کے قریب ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہی گرمجوشی اجتماعی حکمت عملی میں بھی نظر آئے گی؟ کیا مسلم دنیا اس بار محض مذمتی بیانات سے آگے بڑھے گی یا واقعی غزہ کے لیے کوئی عملی روڈ میپ تشکیل پائے گا؟
امریکہ کی "تجویز” یا نئی ذمہ داری؟
اجلاس میں صدر ٹرمپ نے مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں قیامِ امن کے لیے عملی کردار ادا کریں، جن میں فوجی تعیناتی، تعمیرِ نو اور مالی معاونت شامل ہے۔ امریکی صدر کے اس بیان نے جہاں مسلم ممالک کے کردار کو اہم تسلیم کیا، وہیں ایک نئی بحث کو بھی جنم دیا کہ کیا یہ اصل میں فلسطینیوں کا مقدمہ ہے یا مسلم ممالک کو ایک نئی جنگی دلدل میں جھونکنے کی کوشش؟
صدر ٹرمپ نے واضح الفاظ میں کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دراصل "حماس کے مظالم کو انعام دینے” کے مترادف ہے۔ اس بیان سے نہ صرف ان کے اسرائیل نواز رویے کی جھلک ملی بلکہ یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ امریکہ اب بھی مسئلہ فلسطین کو طاقت کی زبان میں حل کرنا چاہتا ہے، نہ کہ انصاف اور بین الاقوامی قانون کے مطابق۔
مشترکہ لائحہ عمل کا فقدان
اگرچہ اجلاس میں مسلم سربراہان نے اپنے اپنے نقطہ نظر اور تجاویز پیش کیں، تاہم اجلاس کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ یا متفقہ لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ یہ خلا ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ مسلم دنیا ابھی تک داخلی تقسیم، باہمی مفادات اور عالمی دباؤ کے شکنجے سے آزاد نہیں ہو پائی۔
مسلم دنیا کے عوام بالعموم اس امید سے ان اجلاسوں کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید ان کے مظلوم بھائیوں کے لیے کچھ ٹھوس فیصلے کیے جائیں گے، مگر اکثر اجلاس رسمی بیانات، سفارتی جملوں اور تصویری ملاقاتوں تک محدود رہتے ہیں۔
شہباز شریف اور ٹرمپ کی ملاقات: تعلقات میں بہتری کی امید؟
اجلاس کے اختتام پر وزیرِ اعظم شہباز شریف اور صدر ٹرمپ کے درمیان ایک غیر رسمی ملاقات ہوئی، جسے خوشگوار ماحول میں ہونے والی گفتگو قرار دیا گیا۔ اگرچہ اس ملاقات سے فوری طور پر کوئی پالیسی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہوگا، تاہم اسے پاکستان-امریکہ تعلقات میں برف پگھلنے کی علامت ضرور سمجھا جا سکتا ہے۔
ماضی میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، اور حالیہ عالمی حالات کے تناظر میں اسلام آباد کی طرف سے واشنگٹن کے ساتھ توازن کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے۔ شہباز-ٹرمپ ملاقات اس تناظر میں اہم سمجھی جا رہی ہے۔
کیا اگلا قدم فلسطین کے حق میں ہو گا؟
اجلاس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ نے پہلی بار واضح طور پر مسلم ممالک سے غزہ میں میدانی کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسلم قیادت کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ صرف بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات کے ذریعے فلسطینی عوام کا تحفظ کرے؟ یا پھر یہ دعوت ایک نیا دلدل ہے جس میں مسلم افواج کو الجھا کر اسرائیل کو مزید آزادانہ فضا دی جائے گی؟
یہ وقت فیصلہ کن ہے، کیونکہ اگر مسلم قیادت نے اس موقع پر اجتماعی حکمت عملی نہ اپنائی تو نہ صرف غزہ کا المیہ بڑھے گا، بلکہ مسلم دنیا کی ساکھ بھی شدید متاثر ہوگی۔
واشنگٹن میں ہونے والا یہ اجلاس ایک اہم سنگ میل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ مسلم قیادت اس موقع کو تاریخی ذمہ داری سمجھتے ہوئے عملی اقدامات کرے۔ اگر فلسطینیوں کے حق میں اجتماعی مؤقف، مشترکہ لائحہ عمل اور میدانِ عمل میں موجودگی نظر نہ آئی، تو آنے والے وقت میں عوام کی مایوسی مزید گہری ہوگی اور مسلم قیادت کے بیانیے کو کمزور کرے گی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ صرف تقریریں نہیں، بلکہ فیصلے کیے جائیں۔

Comments 2