عالمی سیاسی منظرنامہ اور پس منظر
دنیا ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کے بحران کی طرف متوجہ ہے، جہاں غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کے حوالے سے امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے باضابطہ منظوری مانگ لی ہے۔
یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب غزہ میں انسانی بحران شدید ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور اسرائیل-فلسطین تنازعہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
امریکی تجویز اور مجوزہ عالمی فورس
امریکی ویب سائٹ Axios کے مطابق، امریکا نے یو این ایس سی کے رکن ممالک کو ایک مسودہ (Draft Resolution) ارسال کیا ہے۔
اس میں تجویز دی گئی ہے کہ غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کم از کم دو سال کے لیے کی جائے، جسے International Security Force (ISF) کہا جائے گا۔
یہ فورس غزہ بورڈ آف پیس کے مشورے سے تشکیل دی جائے گی، جس کی صدارت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہوگی۔
امریکی سفارتی ذرائع کے مطابق، اس فورس کا بنیادی مقصد خطے میں عبوری سیکیورٹی فراہم کرنا اور ایک نیا نظمِ امن قائم کرنا ہے۔
مجوزہ عالمی فورس کے اختیارات
قرارداد کے مطابق، ISF فورس کو درج ذیل اختیارات حاصل ہوں گے:
- غزہ کی سرحدی سیکیورٹی کو یقینی بنانا
- عام شہریوں کے تحفظ کے لیے اقدامات
- انسانی امدادی راہداریوں کا قیام
- فلسطینی پولیس فورس کی تربیت
- علاقے کو غیر عسکری زون میں تبدیل کرنا
مزید یہ کہ فورس کو بین الاقوامی قوانین کے تحت “تمام ضروری اقدامات” کرنے کا اختیار ہوگا تاکہ امن کے قیام میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
فورس کی ساخت اور سربراہی
ذرائع کے مطابق، غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کے لیے امریکا نیٹو ممالک، یورپی یونین، اور بعض عرب ریاستوں سے بھی رابطے میں ہے۔
یہ فورس مختلف ممالک کے تربیت یافتہ اہلکاروں پر مشتمل ہوگی، جنہیں اقوام متحدہ کے ماتحت رکھا جائے گا لیکن اس کی عملی سربراہی امریکا کے زیرِ اثر ہوگی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ صدارت “غزہ بورڈ آف پیس” فورس کی حکمتِ عملی، امدادی راہداریوں، اور پالیسیوں کی نگرانی کرے گا۔
امن مشن یا نفاذی فورس؟
امریکی مسودے کے مطابق، ISF کو “Peacekeeping Mission” نہیں بلکہ “Enforcement Force” کہا گیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فورس کسی تصادم کی صورت میں کارروائی کا اختیار بھی رکھے گی۔
غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کے بعد اسرائیل کو بتدریج علاقہ خالی کرنا ہوگا تاکہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کے بعد انتظام سنبھال سکے۔
سول انتظامیہ اور انسانی امداد
قرارداد میں مزید تجویز دی گئی ہے کہ غزہ کی سول انتظامیہ ایک “غیر سیاسی تکنوکریٹ کمیٹی” کے ذریعے چلائی جائے۔
یہ کمیٹی اقوام متحدہ، ریڈ کراس، اور ریڈ کریسنٹ کے ساتھ مل کر انسانی امداد کی تقسیم کو شفاف بنائے گی۔
ذرائع کے مطابق، فورس کی موجودگی کے دوران تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے منصوبے بھی شروع کیے جائیں گے۔
عالمی ردِعمل اور سفارتی چیلنجز
امریکی تجویز پر دنیا بھر میں مختلف ردِعمل سامنے آ رہے ہیں۔
کچھ یورپی ممالک نے اس اقدام کو “امن کی جانب اہم قدم” قرار دیا ہے، جبکہ روس، چین اور بعض عرب ممالک نے اس پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
چین کا کہنا ہے کہ غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی تب ہی مؤثر ثابت ہوگی جب اس میں تمام فریقین کی رضامندی شامل ہو۔
روسی مندوب نے کہا کہ کوئی بھی فوجی اقدام اگر یکطرفہ ہوا تو خطے میں مزید کشیدگی پیدا کرے گا۔
اسرائیلی موقف
اسرائیل نے اس قرارداد کا ابتدائی طور پر خیر مقدم کیا ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ وہ اپنی “سیکیورٹی حدود” سے دستبردار نہیں ہوگا۔
اسرائیلی حکام کا مؤقف ہے کہ عالمی فورس کو پہلے فلسطینی گروہوں کی عسکری سرگرمیوں کو مکمل طور پر روکنا ہوگا۔
فلسطینی اتھارٹی اور عوامی ردِعمل
فلسطینی اتھارٹی نے بیان جاری کیا کہ وہ غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کے اصولی طور پر حامی ہیں بشرطیکہ فورس کا مقصد فلسطینی خودمختاری کو مضبوط بنانا ہو، نہ کہ اسے محدود کرنا۔
غزہ کے شہریوں نے اس خبر پر ملے جلے تاثرات ظاہر کیے۔ کچھ نے امید ظاہر کی کہ عالمی فورس سے امن بحال ہوگا، جبکہ بعض نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ نیا قبضہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ممکنہ نتائج اور مستقبل کا منظر
اگر سلامتی کونسل اس قرارداد کی منظوری دیتی ہے تو ISF کی تعیناتی آئندہ چند ماہ میں شروع ہو سکتی ہے۔
یہ پیش رفت مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی نقشے کو بڑی حد تک بدل سکتی ہے۔
غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کے نتیجے میں:
- اسرائیل بتدریج فوجی انخلا کر سکتا ہے۔
- فلسطینی علاقوں میں استحکام کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
- بین الاقوامی طاقتوں کا کردار مزید مضبوط ہوگا۔
تاہم، اس منصوبے کے سیاسی اثرات، مالی اخراجات اور علاقائی مخالفت اسے متنازع بنا سکتے ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر: غزہ امن فوج کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی
امریکا کی تجویز کردہ غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی ایک تاریخی پیش رفت بن سکتی ہے اگر اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری مل جائے۔
یہ فورس نہ صرف سیکیورٹی فراہم کرے گی بلکہ غزہ کی تعمیرِ نو، انسانی امداد، اور خودمختاری کی بحالی کے عمل میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے۔
اب دنیا کی نظریں یو این کی اگلی نشست پر مرکوز ہیں، جہاں اس قرارداد پر بحث متوقع ہے۔









