Inter‑Services Public Relations (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے اعلان کیا ہے کہ غزہ امن فوج کے قیام کا حتمی فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جب بات غزہ امن فوج کی ہو گی، تو فوج خود فیصلہ نہیں کرے گی بلکہ یہ معاملہ حکومت اور پارلیمنٹ کے دائرے میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اپنی پالیسی بنانے میں خودمختار ہے اور اپنی سرحدوں اور عوام کی حفاظت کے لیے تیار ہے۔
فوج کا مؤقف
ان کے بقول، فوج کا سیاست میں مداخلت کرنے کا ارادہ نہیں ہے اور فوج کا یہ رول رہنا چاہیے کہ اسے سیاست سے دور رکھا جائے۔ یہ تأکید اُس وقت سامنے آئی جب غزہ امن فوج کے ممکنہ قیام اور پاکستان کے اس میں کردار کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے تھے۔
اہم نکات
- غزہ امن فوج کے حوالے سے فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کی منظوری کے تابع ہے۔
- فوج کا کردار دفاع اور سرحدی تحفظ تک محدود رہنے کا اشارہ دیا گیا ہے۔
- افغانستان کی صورتحال اور منشیات اسمگلنگ کا ذکر بھی پریس کانفرنس میں آیا، جس میں کہا گیا کہ پاکستان نے افغان طالبان کے خلاف مؤثر ردعمل دیا ہے۔
- فوجی ترجمان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف گفتگو نہیں کی جائے گی اور سیاسی جرائم پیشہ عناصر اور اسمگلنگ گروپس پاکستان میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
غزہ امن فوج کا اہم پہلو
غزہ امن فوج سے مراد ایک ممکنہ بین الاقوامی یا علاقائی فوجی دستہ ہے جسے غزہ کی صورتحال میں امن کی بحالی کے لیے متحرک کیا جائے گا۔ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے واضح کیا کہ پاکستان اس طرح کے کردار کے لیے تیّار ہے، مگر سب سے پہلے اس کا فیصلہ ملکی پارلیمنٹ اور حکومت کے اندر ہونا چاہیے۔

پاکستان کی پالیسی اور چیلنجز
پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کا ایک اہم جز یہ رہا ہے کہ فوج سیاست سے دور رہے اور عوامی نکتہ نظر سے بھی اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ فوجی مداخلت نہ ہو۔ اس تناظر میں غزہ امن فوج کے معاملے پر مؤقف یہ ہے کہ پاکستان کسی بھی غیرموافق فیصلہ سے اجتناب کرے گا اور تمام شعبوں کی مشاورت سے فیصلہ کرے گا۔
مزید یہ کہ افغانستان کی پشتون سرحدی پٹی سے منسلک چیلنجز — منشیات کی اسمگلنگ، دہشت گردی، سیاسی جرائم پیشہ عناصر — نے اس امر کی ضرورت کو مزید بڑھا دیا ہے کہ ملکی سرحدی تحفظ اور علاقائی ذمہ داریوں کے حوالے سے حکمت عملی جامع ہو۔
آئندہ لائحہ عمل
اگر حکومت اور پارلیمنٹ نے غزہ امن فوج میں شرکت کا فیصلہ کیا تو درج ذیل نکات اہم ہوں گے:
- قومی سطح پر مشاورت اور شفافیت کے ساتھ فیصلہ لینا، تاکہ عوامی اعتماد قائم رہے۔
- فوج کا مؤقف اور کردار واضح ہونا چاہیے، تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔
- بین الاقوامی قانونی فریم ورک (مثلاً اقوام متحدہ کی منظوری) کی بنیاد پر کارروائی کرنا بہتر ہے، تاکہ ملک پر سیاسی و عسکری دباؤ کم ہو۔
- علاقائی اور بین الاقوامی اثرات کا جائزہ لینا، خاص طور پر اس بات کا خیال کرنا کہ پاکستانی فورسز کی شرکت کس طرح پاکستان کی خارجہ پالیسی اور علاقائی تعلقات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔
غزہ امن معاہدہ بچانے کیلئے امریکی وفد اسرائیل پہنچ گیا
ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے واضح ہوا ہے کہ غزہ امن فوج کا معاملہ فوج سے زیادہ حکومت اور پارلیمنٹ کا ہے۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اس قسم کے قدم اُٹھانے سے پہلے ملکی مفاد، عوامی توقعات اور علاقائی استحکام کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس سلسلے میں فوج نے اپنا مؤقف بیان کر دیا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے اور دفاعی شعبے تک اپنا کردار محدود رکھے گی۔










Comments 1