عالمی توانائی کے شعبے میں ایک اور بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے، جہاں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی آگئی ہے
تیل کی قیمتوں میں یہ کمی بین الاقوامی مارکیٹ پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے اور مختلف ممالک کی معیشتیں اس کے اثرات کو شدت سے محسوس کر رہی ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، برینٹ کروڈ آئل 0.68 فیصد کمی کے بعد 68.15 ڈالر فی بیرل پر آگیا ہے، جبکہ امریکی خام تیل (WTI) 0.7 فیصد گر کر 64.14 ڈالر فی بیرل پر بند ہوا ہے۔ یہ صورتحال بظاہر معمولی کمی دکھائی دیتی ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ عالمی توانائی کی منڈی میں بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے۔
ماہرین کی پیش گوئیاں: قیمتیں مزید گریں گی
توانائی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو آنے والے برسوں میں تیل کی قیمتوں میں مزید کمی ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق سال 2026 کے آخر تک خام تیل کی قیمت 50 ڈالر فی بیرل تک گرنے کا امکان ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عالمی سطح پر تیل کی بڑھتی ہوئی فراہمی ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی (IEA) نے اپنی رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ سال 2026 تک تیل کی فراہمی میں یومیہ 21 لاکھ بیرل کا اضافہ ہوگا، جبکہ طلب میں اضافہ محض 7 لاکھ بیرل یومیہ تک محدود رہے گا۔ اس طرح عالمی مارکیٹ میں یومیہ 14 لاکھ بیرل اضافی تیل دستیاب ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا ماننا ہے کہ آنے والے وقت میں قیمتوں پر مزید دباؤ پڑے گا اور عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی آگئی کے رجحان کو مزید تقویت ملے گی۔

قیمتوں میں کمی کے اسباب
تیل کی قیمتوں میں کمی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم عنصر دنیا بھر میں توانائی کے متبادل ذرائع کی بڑھتی ہوئی مانگ ہے۔ شمسی توانائی، ونڈ انرجی اور الیکٹرک وہیکلز (EVs) نے تیل پر انحصار کم کرنا شروع کر دیا ہے۔ دنیا کی بڑی معیشتیں جیسے چین، امریکہ اور یورپ اپنی توانائی کی پالیسیوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لا رہی ہیں تاکہ کاربن کے اخراج کو کم کیا جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تیل کی طلب میں اضافہ متوقع شرح سے کم ہو رہا ہے۔
مزید برآں، مشرقِ وسطیٰ اور دیگر خطوں میں سیاسی حالات کے باوجود تیل کی پیداوار میں کسی بڑی رکاوٹ کی توقع نہیں ہے۔ سعودی عرب، عراق اور روس جیسے بڑے پیداواری ممالک مسلسل اپنی پیداوار کو مستحکم رکھے ہوئے ہیں تاکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی سپلائی جاری رہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی آگئی اور مزید کمی کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
موجودہ صورتحال
فی الوقت عالمی مارکیٹ میں لندن برینٹ کروڈ آئل 67.32 ڈالر فی بیرل جبکہ امریکی خام تیل 63.32 ڈالر فی بیرل پر دستیاب ہے۔ اس کمی نے دنیا کے مختلف خطوں میں ملا جلا ردعمل پیدا کیا ہے۔ جہاں تیل درآمد کرنے والے ممالک جیسے پاکستان، بھارت اور جاپان اس کمی کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں، وہیں تیل برآمد کرنے والے ممالک جیسے سعودی عرب، روس اور ایران کے لیے یہ ایک تشویشناک امر ہے۔
تیل درآمد کرنے والے ممالک پر اثرات
پاکستان جیسے ممالک جو اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ تر تیل درآمد کرتے ہیں، ان کے لیے یہ کمی وقتی ریلیف کا باعث ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی سے نہ صرف درآمدی بل کم ہوگا بلکہ روپے پر دباؤ بھی کم ہو گا۔ توانائی کی قیمتیں گرنے سے مہنگائی میں کمی آسکتی ہے اور صنعتی شعبے میں پیداواری لاگت کم ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی آگئی پاکستان جیسی معیشتوں کے لیے خوشخبری ہے۔
تیل برآمد کرنے والے ممالک کے خدشات
دوسری جانب، سعودی عرب اور روس جیسے بڑے برآمد کنندہ ممالک کے لیے یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان ممالک کی معیشتیں بڑی حد تک تیل کی برآمد پر انحصار کرتی ہیں۔ اگر قیمتیں 50 ڈالر فی بیرل تک گرتی ہیں تو ان ممالک کے بجٹ خسارے میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کئی ممالک نے اپنی معیشتوں کو متنوع بنانے کی کوششیں کی ہیں لیکن تاحال ان کی آمدنی کا بڑا حصہ تیل کی فروخت سے ہی جڑا ہوا ہے۔
مستقبل کی سمت
توانائی کے شعبے کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آنے والے برسوں میں توانائی کی منڈی میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اگرچہ قلیل مدت میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے درآمد کنندہ ممالک کو فائدہ ہوگا، لیکن طویل مدت میں اس کمی کے اثرات بہت گہرے ہو سکتے ہیں۔ ایک طرف جہاں متبادل توانائی ذرائع کو فروغ ملے گا، وہیں دوسری طرف تیل کی پیداوار کرنے والے ممالک کو اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی آگئی اور آنے والے برسوں میں یہ کمی مزید بڑھنے کی توقع ہے۔ تیل کی طلب اور رسد کے درمیان بڑھتا ہوا فرق قیمتوں کو نیچے لے جا رہا ہے۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو 2026 تک تیل کی قیمتیں 50 ڈالر فی بیرل کی سطح تک گر سکتی ہیں۔ اس صورتحال کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ توانائی کی عالمی معیشت ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔
پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کا 15 روزہ شٹ ڈاؤن — پیداوار عارضی طور پر معطل