عالمی منڈی میں خام تیل کے نرخوں میں اضافہ، برینٹ کروڈ 66.37 ڈالر پر
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ: اوپیک پلس کی محتاط حکمتِ عملی اور روس پر ممکنہ پابندیاں اہم عوامل
نیویارک / لندن / دبئی — عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ دنوں کے دوران ایک مرتبہ پھر اضافے کا رجحان سامنے آیا ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں اوپیک پلس کی جانب سے پیداوار میں محدود اضافہ اور روس پر ممکنہ نئی پابندیوں کے خدشات شامل ہیں۔ ان عوامل نے عالمی توانائی منڈی میں نئی بے یقینی پیدا کر دی ہے، جس کے باعث سرمایہ کار ایک مرتبہ پھر خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں۔
برینٹ اور ویسٹ ٹیکساس خام تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ
منگل کے روز عالمی منڈی میں کاروباری سرگرمیوں کے دوران خام تیل کی قیمتوں میں 0.5 فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق:
برینٹ کروڈ آئل کی قیمت میں 35 سینٹ (یا 0.53 فیصد) کا اضافہ ہوا، اور نئی قیمت 66.37 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی۔
امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (WTI) کی قیمت 32 سینٹ (یا 0.51 فیصد) کے اضافے سے 62.58 ڈالر فی بیرل پر بند ہوئی۔
یہ اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی منڈی میں تیل کی طلب نسبتاً مستحکم ہے، لیکن پیداوار کے متعلق اوپیک پلس کی محتاط پالیسی اور جیوپولیٹیکل خدشات نے قیمتوں پر دباؤ ڈالا ہوا ہے۔
اوپیک پلس کی حکمت عملی: پیداوار میں محدود اضافہ
خام تیل کی عالمی قیمتوں پر سب سے نمایاں اثر اوپیک پلس (OPEC+) کے حالیہ فیصلے نے ڈالا ہے۔ اوپیک پلس میں شامل 8 اہم رکن ممالک نے اتوار کے روز اعلان کیا کہ وہ اکتوبر 2025 سے پیداوار میں یومیہ 137,000 بیرل کا اضافہ کریں گے۔
یہ اضافہ:
اگست و ستمبر کے اضافے کے مقابلے میں کم ہے
جولائی و جون میں ہونے والے اضافوں سے بھی پیچھے ہے
ماہرین کی توقعات سے خاصا کم قرار دیا جا رہا ہے
ماہرین کا تجزیہ
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ:
"اوپیک پلس کی جانب سے محتاط رویہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ تیل کی عالمی قیمتوں کو ایک خاص سطح پر مستحکم رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ پیداوار اور قیمت میں توازن قائم رکھا جا سکے۔”
مزید برآں، اس محدود اضافے نے سرمایہ کاروں کو یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ عالمی رسد میں اچانک کوئی بڑی تبدیلی متوقع نہیں، جس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ممکن ہوا۔
روس پر ممکنہ نئی پابندیوں کے خدشات
دوسری اہم وجہ روس پر ممکنہ نئی پابندیاں ہیں، جو کہ عالمی سطح پر توانائی کی فراہمی کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھی جاتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں روس کے سب سے بڑے فضائی حملے کے دوران یوکرین کے دارالحکومت کیف میں ایک اہم سرکاری عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد مغربی ممالک کی جانب سے ماسکو پر مزید اقتصادی پابندیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔
اثرات:
روس دنیا کے سب سے بڑے خام تیل برآمد کنندگان میں شامل ہے
نئی پابندیاں تیل کی عالمی رسد کو متاثر کر سکتی ہیں
عالمی توانائی سپلائی چین میں خلل پیدا ہونے کا خدشہ ہے
یہی خدشات سرمایہ کاروں کے لیے تیل کو ایک بار پھر سٹریٹجک کموڈیٹی بنا رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔
طلب اور رسد کی پیچیدہ صورتحال
رسد:
اوپیک پلس کی پیداوار میں سست رفتاری
روس پر پابندیوں کا خدشہ
امریکی شیل آئل کی پیداوار میں وقتی رکاوٹیں
طلب:
دنیا بھر میں معاشی بحالی کے آثار
صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ (خصوصاً ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں)
سردیوں کی آمد سے توانائی کی طلب میں متوقع اضافہ
یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسی صورتحال پیدا کر رہے ہیں جہاں طلب بڑھ رہی ہے مگر رسد محدود ہو رہی ہے، جس کا منطقی نتیجہ قیمتوں میں اضافہ ہے۔
سرمایہ کاروں اور مارکیٹ کا ردعمل
بین الاقوامی مالیاتی ادارے، ہیج فنڈز، اور تیل کی ٹریڈنگ کرنے والے بڑے سرمایہ کار خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو قریبی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کا رجحان اس وقت "Long Positions” کی طرف ہے، یعنی وہ قیمتوں میں مزید اضافے کی توقع کے ساتھ سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
امریکی مارکیٹ کے معروف تجزیہ کار، رابرٹ فری مین کا کہنا ہے:
"اگر روس پر پابندیاں سخت کی گئیں اور اوپیک پلس نے پیداوار میں اضافہ نہ کیا تو اگلے ماہ کے اختتام تک برینٹ آئل کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر سکتی ہے۔”
پاکستان اور ترقی پذیر ممالک پر اثرات
خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کا پاکستان سمیت دیگر تیل درآمد کرنے والے ممالک پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ پاکستان جہاں پہلے ہی مہنگائی، زرِمبادلہ کے ذخائر، اور روپے کی قدر کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے، وہاں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کئی محاذوں پر دباؤ بڑھا سکتا ہے:
ممکنہ اثرات:
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
ٹرانسپورٹ اور اشیائے خور و نوش کی لاگت میں اضافہ
افراطِ زر میں مزید اضافہ
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں وسعت
توانائی شعبے پر مزید مالی دباؤ
مستقبل کی پیش گوئیاں
مثبت منظرنامہ:
اگر عالمی سیاسی کشیدگی میں کمی آتی ہے
روس اور مغربی ممالک کے درمیان سفارتی راستے کھلتے ہیں
اوپیک پلس پیداوار میں تیزی لاتا ہے
تو قیمتوں میں وقتی کمی ممکن ہے۔
منفی منظرنامہ:
روس پر مزید سخت پابندیاں لگتی ہیں
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھتی ہے
اوپیک پلس محدود پیداوار کی پالیسی پر قائم رہتا ہے
تو خام تیل کی قیمتیں 70–75 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں۔
کیا حکومتوں کو مداخلت کرنی چاہیے؟
ماہرین کا ماننا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومتیں، خصوصاً ترقی پذیر ممالک کی، توانائی کے متبادل ذرائع پر سنجیدگی سے توجہ دیں، تاکہ عالمی منڈی کے اتار چڑھاؤ سے انحصار کم ہو۔
ممکنہ اقدامات:
متبادل توانائی (سولر، ونڈ، ہائیڈرو) پر سرمایہ کاری
مقامی سطح پر توانائی کے منصوبوں کو تیز کرنا
توانائی بچت کے لیے قومی سطح پر مہمات
پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دے کر ایندھن کی کھپت کم کرنا
عالمی توانائی مارکیٹ میں غیریقینی کا راج
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ، اوپیک پلس کی محدود پیداوار، اور روس پر ممکنہ پابندیوں کے خدشات نے واضح کر دیا ہے کہ توانائی مارکیٹ اب مکمل طور پر جیوپولیٹیکل اثرات کی زد میں ہے۔ اگرچہ قیمتوں میں حالیہ اضافہ فی الحال معمولی ہے، لیکن رجحان اور پالیسی فیصلے یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ مستقبل قریب میں توانائی کے شعبے میں مزید ہلچل متوقع ہے۔
توانائی کے موجودہ عالمی منظرنامے میں خام تیل کی قیمتیں محض تجارتی اعداد و شمار نہیں بلکہ عالمی سیاست، معاشی ترجیحات، اور ماحولیاتی پالیسیوں سے جڑی ایک پیچیدہ تصویر بن چکی ہیں۔ اس کے اثرات نہ صرف عالمی معیشت بلکہ عام شہری کی جیب تک پہنچتے ہیں۔ ایسے میں دانشمندانہ پالیسیاں، متبادل توانائی کا فروغ، اور علاقائی

