حکومت نے آئ ایم ایف قسط کی منظوری کے لیے آخری رکاوٹ دور کر دی
اسلام آباد — وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ International Monetary Fund کے تحت اگلی آئ ایم ایف قسط (1.2 ارب ڈالر) کے اجرا کی منظوری کے لیے حائل آخری رکاوٹ دور کرنے کا فیصلہ کر لی ہے۔
پسِ منظر
حکومت نے بتایا ہے کہ وہ قسط کی منظوری سے قبل دیگر تمام شرائط پوری کر چکی ہے، اور صرف ایک اہم شرط باقی تھی جو جلد مکمل کی جائے گی۔ اس آئ ایم ایف قسط کی منظوری کے بعد ملک کی معیشت کو درپیش قرضوں اور مالیاتی دباؤ میں کچھ ریلیف متوقع ہے۔
حکومت نے گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگنوسس رپورٹ شائع کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے، جو کہ نسخہ منظوری کی شرط تھی۔

آئی ایم ایف شرط اور اس کی اہمیت
- رپورٹ میں سرکاری اداروں کی کمزوریاں، انتظامی خامیاں، کرپشن کے خدشات اور قانون کی عمل داری کی کمزوری شامل ہیں۔
- حکومت نے کہا ہے کہ آئ ایم ایف قسط کی منظوری کے لیے یہ رپورٹ 15 نومبر سے قبل جاری کی جائے گی تاکہ بورڈ اجلاس میں وقت پر پیش کی جا سکے۔
- اس کے بعد ہی International Monetary Fund کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس طلب کیا جائے گا، جہاں اس قسط کی منظوری متوقع ہے۔
کیا شامل ہے قسط میں؟
یہ آئ ایم ایف قسط تقریباً 1.2 ارب ڈالر کی ہے، جس میں سے 1 ارب ڈالر ای ایف ایف (Extended Fund Facility) کے تحت ہیں اور 20 کروڑ ڈالر کلائمیٹ فنانسنگ مد میں شامل ہیں۔
اس قسط کے اجرا سے ملک کے بیرونی مالیاتی ذخائر کو سہارا ملے گا اور قرضوں کی ادائیگی کے دباؤ میں کچھ کمی ہو سکتی ہے۔
اس کا ملک پر اثر
- اس آئ ایم ایف قسط سے پاکستان کو فوری طور پر مالی معاونت ملے گی، جو معاشی استحکام کے عمل کو آگے بڑھا سکتی ہے۔
- حکومت کی اصلاحاتی پالیسیوں اور مالیاتی نظم و ضبط کی حکمت عملی میں معاونت کا امکان ہے۔
- تاہم، یہ قسط صرف پہلی قدم ہے؛ اس کے بعد مزید شرائط پوری کرنا باقی ہیں، اور معیشت کو دیرپا استحکام کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
چیلنجز اور خدشات
- رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر یا تکنیکی مسائل پیش آ سکتے ہیں، جو آئ ایم ایف قسط کی منظوری میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
- معیشت کے بنیادی مسائل جیسے قرضوں کا بوجھ، بیرونی خسارہ، اور طویل المدتی اصلاحات ابھی باقی ہیں، یعنی قسط منظوری کے باوجود جڑوں تک جانے والا اثر ابھی پیدا ہونا باقی ہے۔
- عوامی سطح پر خدشات ہیں کہ آئ ایم ایف کے شرائط ملک کی خودمختاری یا اصلاحاتی رفتار پر اثر ڈال سکتی ہیں، اور اس آئ ایم ایف قسط کے بعد معاشی بوجھ عوام پر منتقل ہونے کا خدشہ ہے۔
حکومت کیا کہتی ہے؟
ذرائع نے بتایا ہے کہ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام تکنیکی اور انتظامی امور مکمل ہیں، اور صرف رپورٹ کے اجرا کا مرحلہ باقی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ وہ اس IMF قسط کی منظوری کے لیے تیار ہیں اور اجلاس کا انعقاد جلد ممکن ہوگا۔مزید کہا گیا ہے کہ رپورٹ کے بعد ایک باقاعدہ عمل درآمد فریم ورک بھی شیئر کیا جائے گا، تاکہ اصلاحاتی اقدامات کا نفاذ یقینی بنایا جا سکے۔
آئندہ لائحہ عمل
اگر یہ آئ ایم ایف قسط منظوری پائے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ:
- فوری طور پر رپورٹ کا اجرا یقینی بنائے اور عوامی مفاد میں شفافیت اختیار کرے۔
- قرضوں کی سطح کو کم کرنے اور بیرونی مالیاتی استحکام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات تیز کرے۔
- اصلاحات کا عمل جلد از جلد نافذ کرے تاکہ آئ ایم ایف کے شرائط کے مطابق ملک کے مالیاتی حالات بہتر ہوں۔
- عوام کو مستقل فوائد پہنچانے کے لیے معیشت میں بہتری لانے کی حکمت عملی مرتب کرے، تاکہ آئ ایم ایف قسط کا اثر براہ راست عوام تک پہنچ سکے۔
اسٹیٹ بینک شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ
حکومت کا یہ فیصلہ کہ آئ ایم ایف قسط کے اجرا کی آخری رکاوٹ دور کر لی گئی ہے، ایک اہم معاشی سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر یہ صرف نقطہ آغاز ہے۔ مستقبل میں اصلاحات کی رفتار، شفافیت، اور معاشی استحکام ہی وہ عوامل ہوں گے جن پر عوام کا اعتماد منحصر ہے۔ اس قسط کی منظوری ملک کے لیے اہم ہے، مگر سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ یہ رقم اور اصلاحات عوامی فلاح و بہبود کے حقیقی مواقع میں تبدیل کریں۔










Comments 1