پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری اور ہادی علی عدالت طلب — قانونی جنگ، سوشل میڈیا اور ریاستی بیانیہ
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس نے حال ہی میں پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری اور ان کے شوہر ہادی علی چٹھہ کے خلاف "متنازع ٹوئٹ کیس” میں طلبی کا نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ مقدمہ ایک عام فوجداری کیس سے زیادہ ایک سوشل میڈیا اور ریاستی بیانیے کی جنگ بن چکا ہے جس کے اثرات نہ صرف سیاست بلکہ آئندہ کے قانونی ڈھانچے پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
یہ کیس بنیادی طور پر سوشل میڈیا پر کی گئی چند ٹوئٹس اور پوسٹس پر استوار ہے۔ ایف آئی آر میں درج الزامات کے مطابق ایمان مزاری اور ان کے شوہر پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی پوسٹس کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے تھے اور عوام کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ خاص طور پر یہ کہا گیا کہ انہوں نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں لاپتا افراد کے معاملے کو براہ راست سیکیورٹی فورسز سے جوڑ کر پیش کیا۔
یہ مقدمہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام ایکٹ (PECA) کی دفعات 9، 10، 11 اور 26 کے تحت درج کیا گیا ہے۔ ان دفعات میں شامل ہیں:
دفعہ 9: ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد کی اشاعت۔
دفعہ 10: سائبر دہشت گردی۔
دفعہ 11: مذہبی، نسلی یا لسانی بنیادوں پر نفرت پھیلانا۔
دفعہ 26: معاونت یا اشتعال انگیزی۔
عدالت کی کارروائی
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں اس کیس کا چالان پیش کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری اور ہادی علی کو طلبی کا نوٹس جاری کیا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ اس کیس کی ٹرائل کارروائی کریں گے جبکہ آئندہ سماعت 17 ستمبر کو مقرر کی گئی ہے۔ اس سماعت میں ملزمان کو چالان کی نقول فراہم کی جائیں گی۔
اس سے قبل ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد افضل مجوکہ نے دونوں کو عبوری ضمانت دے رکھی تھی اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCIA) کو ان کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔
ایمان مزاری کون ہیں؟
ایمان مزاری پاکستان کی ایک معروف وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ سابق وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ہیں۔ ایمان مزاری نے ہمیشہ انسانی حقوق، لاپتا افراد اور سیاسی آزادیوں کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ ان کا شمار ان چند وکلاء میں ہوتا ہے جو نہ صرف عدالتوں بلکہ عوامی فورمز پر بھی کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
ہادی علی چٹھہ کا پس منظر
ہادی علی چٹھہ بھی ایک نوجوان وکیل اور سماجی کارکن ہیں۔ ان کی پہچان زیادہ تر ایمان مزاری کے ساتھ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت سے بنی۔ ان پر الزام ہے کہ وہ بھی اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں۔
ایمان مزاری شکایت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، انکوائری کمیٹی متحرک
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری کا کیس پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی اور سائبر قوانین کے استعمال کے درمیان ایک بڑا ٹیسٹ کیس بن سکتا ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق پیکا کی دفعات کو سیاسی کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔
بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ یہ دفعات مبہم ہیں اور ان کی تشریح مختلف عدالتیں مختلف انداز میں کرتی ہیں۔
دوسری طرف ریاستی مؤقف یہ ہے کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرے اور ملک کو انتشار کی طرف لے جائے۔
سیاسی اور سماجی اثرات
پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری کا کیس محض ایک قانونی جنگ نہیں بلکہ سیاست، میڈیا اور عوامی رائے پر بھی گہرے اثرات ڈال رہا ہے۔
ایک طبقہ اسے آزادی اظہار پر قدغن قرار دے رہا ہے۔
دوسرا طبقہ سمجھتا ہے کہ ریاست کے اداروں پر بلا جواز حملے ملک کے استحکام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پیکا قانون پر بحث
الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 شروع سے ہی متنازع رہا ہے۔
ناقدین کے مطابق یہ قانون صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور سوشل میڈیا صارفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
حکومت اور اداروں کا مؤقف ہے کہ اس کے بغیر آن لائن افواہوں، جعلی خبروں اور نفرت انگیز مہمات کو روکا نہیں جا سکتا۔

آگے کیا ہوگا؟
اب جبکہ ٹرائل کورٹ میں باقاعدہ کارروائی شروع ہونے جا رہی ہے، چند اہم سوالات سامنے آ رہے ہیں:
کیا عدالت ان الزامات کو تسلیم کرے گی یا ملزمان کو ریلیف دیا جائے گا؟
کیا یہ کیس مستقبل میں اظہار رائے اور سوشل میڈیا آزادی پر ایک نظیر قائم کرے گا؟
کیا اس مقدمے سے پیکا قانون میں ترامیم یا عدالتی تشریحات میں تبدیلی کا امکان ہے؟
پیکا ایکٹ کے تحت ایمان مزاری اور ہادی علی چٹھہ (imaan mazari)کا مقدمہ صرف ایک جوڑے کے خلاف نہیں بلکہ پورے ملک میں سوشل میڈیا، اظہار رائے اور ریاستی بیانیے کے درمیان جاری کشمکش کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کیس آنے والے وقت میں پاکستان میں اظہار رائے کی حدود و قیود کے تعین میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
Submitted application today seeking preservation of CCTV footage from Islamabad High Court Courtroom No. 1 on 11 September 2025 between 9 and 11 AM pic.twitter.com/yriwjnmMTe
— Imaan Zainab Mazari-Hazir (@ImaanZHazir) September 13, 2025
Comments 1