آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض، پاکستان نے تفصیلی وضاحت کے ساتھ جواب دے دیا
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی نئی گندم پالیسی پر اعتراض اٹھایا، جس کے بعد وزارتِ غذائی تحفظ نے تفصیلی وضاحت پیش کر کے فنڈ کے تحفظات دور کر دیے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض اس وقت سامنے آیا جب پاکستان نے کم از کم امدادی قیمت کے حوالے سے پالیسی منظور کی تھی۔

آئی ایم ایف کا اعتراض — کم از کم امدادی قیمت پر سوال
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض بنیادی طور پر کم از کم امدادی قیمت (Minimum Support Price) کے تعین سے متعلق تھا۔
فنڈ نے وزارت فوڈ سکیورٹی کو ایک باضابطہ خط کے ذریعے آگاہ کیا اور پالیسی کے خدوخال، قیمتوں کے تعین کے فارمولے اور مارکیٹ میکانزم کی تفصیلات طلب کیں۔
آئی ایم ایف کو خدشہ تھا کہ اگر حکومت امدادی قیمت کو فکس کر دے گی تو مارکیٹ میں مسابقت اور قیمتوں کا توازن متاثر ہوسکتا ہے۔
وزارت فوڈ سکیورٹی کا مؤقف
ذرائع کے مطابق وزارت فوڈ سکیورٹی نے آئی ایم ایف کو جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ امدادی قیمت فکس نہیں کی گئی بلکہ “انڈیکٹو پرائس” (Indicative Price) مقرر کی گئی ہے۔
وزارت نے کہا کہ فنڈ کی جانب سے اعتراض اس غلط فہمی پر مبنی تھا کہ کم از کم قیمت کو حتمی سمجھا گیا، حالانکہ ایسا نہیں۔
اس وضاحت کے بعد آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض ختم کر دیا گیا اور فنڈ نے حکومتی وضاحت قبول کر لی۔

انڈیکٹو پرائس کیسے نکالی گئی؟
وزارت فوڈ کے حکام نے بتایا کہ انڈیکٹو قیمت کا تعین بین الاقوامی مارکیٹ میں امریکی ہارڈ ریڈ گندم کی قیمت کو مدنظر رکھ کر کیا گیا۔
امریکہ میں اس وقت انٹرنیشنل ہارڈ ریڈ گندم کی قیمت 238 ڈالر فی ٹن ہے۔ اسی قیمت کی بنیاد پر پاکستان میں درآمدی لاگت، فریٹ چارجز اور دیگر اخراجات شامل کیے گئے۔
ان تخمینوں کے بعد آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض بے بنیاد قرار پایا، کیونکہ پاکستان کی قیمت عالمی معیار کے مطابق رکھی گئی تھی۔
کراچی سے ملتان تک لاگت کا حساب
ذرائع کے مطابق وزارت فوڈ نے آئی ایم ایف کو بتایا کہ کراچی بندرگاہ پر اترنے والی درآمدی گندم کی لینڈنگ کاسٹ (Landing Cost) کے علاوہ اندرون ملک ترسیلی اخراجات بھی شامل کیے گئے۔
ملتان تک گندم لانے پر جو لاگت آتی ہے، اسے مدنظر رکھتے ہوئے انڈیکٹو قیمت 3500 روپے فی من مقرر کی گئی۔
یہ تخمینہ صرف اندازاً ہے، حتمی قیمت نہیں، تاکہ مارکیٹ میں توازن برقرار رہے۔
اسی بنیاد پر آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض غیر ضروری سمجھا گیا۔
وزیراعظم ہاؤس کو بریفنگ
ذرائع کے مطابق وزارت فوڈ سکیورٹی نے اپنی وضاحت وزیراعظم ہاؤس کو بھی بھیجی ہے تاکہ اعلیٰ سطح پر پالیسی کی منظوری برقرار رکھی جا سکے۔
وزیراعظم آفس کو بتایا گیا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے تمام سوالات کے جوابات فراہم کر دیے ہیں اور اب فنڈ کو کسی نئے اعتراض کی گنجائش نہیں رہی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے بھی وزارت کو ہدایت دی ہے کہ مستقبل میں پالیسی سازی کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھی جائے تاکہ کسی قسم کے اعتراضات دوبارہ پیدا نہ ہوں۔
عالمی منڈی سے موازنہ
وزارت فوڈ کے مطابق عالمی منڈی میں گندم کی قیمت میں مسلسل اتار چڑھاؤ آ رہا ہے، اور اسی کو دیکھتے ہوئے انڈیکٹو قیمت کو لچکدار رکھا گیا ہے۔
پاکستان نے اپنی پالیسی کو بین الاقوامی قیمتوں سے ہم آہنگ کیا ہے تاکہ درآمدات اور مقامی پیداوار دونوں کے لیے یکساں مواقع پیدا ہوں۔
یہی وہ پہلو تھا جس کی وضاحت کے بعد آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض ختم کیا گیا۔
مستقبل کی حکمتِ عملی
ذرائع کے مطابق حکومت پاکستان آئندہ برسوں کے لیے گندم کی خریداری اور قیمتوں کے تعین کے عمل کو مزید شفاف بنانے پر غور کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ کے توازن کو بھی برقرار رکھنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وزارت فوڈ نے اپنی پالیسی میں “انڈیکٹو پرائس” کے ساتھ فلیکسیبل ماڈل رکھا تاکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے اعتماد میں کمی نہ آئے۔
شفافیت اور تعاون کا عزم
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کا گندم پالیسی پر اعتراض پاکستان کی جانب سے وضاحت کے بعد ختم ہو چکا ہے۔
حکومت نے شفافیت، عالمی معیار کے تقاضوں اور کسانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی وضع کی۔
وزارت فوڈ سکیورٹی کا مؤقف ہے کہ گندم پالیسی میں کوئی بھی ایسا اقدام شامل نہیں جو مارکیٹ کی قوتوں کے خلاف ہو۔
اس طرح پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں میں بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ: حالیہ سیلاب پاکستان کی معیشت کیلئے خطرہ