190 ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواست سماعت کیلئے مقرر
190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواست: قانونی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل
تمہید
پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں حالیہ برسوں کے دوران کئی ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جنہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور توجہ حاصل کی۔ ان میں سے ایک نمایاں مقدمہ ہے 190 ملین پاؤنڈ کی مبینہ کرپشن کا کیس، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو نامزد کیا گیا۔ اب یہ مقدمہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، کیونکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں کی بریّت کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
یہ مقدمہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے فائل کیا گیا، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم 190 ملین پاؤنڈ (تقریباً 50 ارب روپے) کی غیر قانونی منتقلی میں معاونت کی، جو برطانیہ سے پاکستان کو منتقل کیے گئے تھے۔ اس رقم سے مبینہ طور پر القادر یونیورسٹی ٹرسٹ اور دیگر نجی مفادات کو فائدہ پہنچایا گیا۔
نیب کے مطابق:
یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی (NCA) کی جانب سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون ملک ریاض کی جائیدادوں سے ضبط کی گئی تھی۔
برطانیہ سے واپس لائی گئی رقم قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے، ایک خفیہ معاہدے کے تحت واپس ملک ریاض کو دے دی گئی۔
عمران خان اور بشریٰ بی بی پر الزام ہے کہ انہوں نے اس معاہدے کے بدلے میں القادر ٹرسٹ کو فائدہ پہنچایا۔
موجودہ پیش رفت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے 25 ستمبر 2025 کو بریّت کی درخواست کی سماعت کے لیے تاریخ مقرر کر دی ہے۔
درخواست گزار: عمران خان اور بشریٰ بی بی
بینچ: چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان
درخواست کا متن: مقدمے میں کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں، یہ کیس سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا، اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
اس سماعت کو نہ صرف قانونی ماہرین بلکہ سیاسی مبصرین بھی انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔
قانونی نکات
درخواست میں درج نکات درج ذیل ہو سکتے ہیں:
شواہد کی عدم موجودگی
نیب اب تک ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا جو براہ راست عمران خان یا بشریٰ بی بی کو بدعنوانی سے جوڑتا ہو۔
سیاسی انتقام کا الزام
عمران خان کے وکلاء کا مؤقف ہے کہ یہ کیس سیاسی انتقام کے طور پر قائم کیا گیا ہے تاکہ انہیں عوامی سیاست سے دور رکھا جا سکے۔
قانونی تقاضوں کی عدم تکمیل
ملزمان کا مؤقف ہے کہ نیب نے آرٹیکل 10-A (منصفانہ ٹرائل کا حق) کی خلاف ورزی کی ہے۔
القادر یونیورسٹی کا کردار
دفاع کے وکلاء کا مؤقف ہے کہ القادر یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے جسے غیر قانونی طور پر کیس کا حصہ بنایا گیا۔
ممکنہ فیصلے اور اثرات
- درخواست منظور ہو جائے (بریّت)
عمران خان اور بشریٰ بی بی کو اس مقدمے سے بری قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ فیصلہ عمران خان کے سیاسی مستقبل کے لیے تقویت کا باعث بنے گا۔
تحریک انصاف کو ایک اخلاقی فتح حاصل ہو گی اور ان کا مؤقف مضبوط ہو جائے گا۔
- درخواست مسترد ہو جائے
کیس کا ٹرائل جاری رہے گا۔
نیب کو مزید ثبوت عدالت میں پیش کرنے ہوں گے۔
عمران خان کو طویل قانونی لڑائی کا سامنا رہے گا، اور ان کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہو سکتی ہیں۔
- مزید تحقیقات یا عبوری فیصلہ
عدالت کیس میں کچھ مزید نکات پر وضاحت یا تفتیش کی ہدایت دے سکتی ہے۔
کسی نئی جے آئی ٹی (جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم) کا امکان بھی خارج از امکان نہیں۔
سیاسی منظرنامہ
یہ کیس عمران خان کی سیاسی ساکھ اور مستقبل کے کردار کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ اگرچہ وہ پہلے ہی توشہ خانہ، سائفر اور دیگر کیسز کا سامنا کر رہے ہیں، مگر 190 ملین پاؤنڈ کیس سب سے سنگین قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ:
اس میں قومی دولت کے غلط استعمال کا الزام ہے۔
عالمی ادارے اور میڈیا اس کیس کو کرپشن کے ایک بڑے اسکینڈل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اگر سزا ہوتی ہے تو ممکنہ طور پر 14 سال قید تک کی نوبت آ سکتی ہے۔
عوامی ردعمل
پاکستانی عوام اس کیس میں دو گروہوں میں منقسم دکھائی دے رہی ہے:
تحریک انصاف کے حامی اسے ایک "جھوٹا اور سیاسی” مقدمہ قرار دیتے ہیں اور عمران خان کی بریت کو یقینی سمجھتے ہیں۔
مخالف حلقے عمران خان کو کرپشن کے الزامات کا سزاوار قرار دیتے ہیں اور نیب سے موثر کارروائی کی توقع رکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی اس کیس کے حوالے سے شدید مباحثے جاری ہیں، اور عوام 25 ستمبر کو آنیوالے عدالتی فیصلے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔
- قانونی ماہرین کی رائے
- متعدد قانونی ماہرین کے مطابق:
- کیس کی نوعیت پیچیدہ اور حساس ہے۔
اگر نیب نے ٹھوس شواہد فراہم نہ کیے تو عدالت بریت کا فیصلہ سنا سکتی ہے۔
عدالت سیاسی نوعیت کو مدنظر رکھے گی مگر فیصلہ شواہد کی بنیاد پر ہوگا۔
عمران خان کی حکمت عملی
عمران خان اور ان کی قانونی ٹیم کی حکمت عملی تین نکات پر مرکوز ہے:
عدالت میں مکمل تعاون اور بروقت پیروی
میڈیا میں عوامی بیانیہ کو مضبوط کرنا
سیاسی سطح پر بین الاقوامی ہمدردی حاصل کرنا، خاص طور پر برطانوی عدالتوں کے فیصلوں کو بطور دلیل پیش کرنا
190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی بریّت کی درخواست نہ صرف قانونی اہمیت کی حامل ہے بلکہ اس کا اثر پاکستان کے سیاسی مستقبل پر بھی پڑ سکتا ہے۔ عدالت کا فیصلہ قانون کی حکمرانی، انصاف کے تقاضوں اور سیاسی فضا میں توازن قائم کرنے کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
اب نگاہیں 25 ستمبر پر جمی ہوئی ہیں، جب اسلام آباد ہائیکورٹ کا ڈویژن بینچ اس اہم مقدمے کی سماعت کرے گا۔ کیا یہ کیس سیاسی انتقام قرار پائے گا یا ایک آئینی احتساب کی مثال؟ یہ فیصلہ وقت کرے گا۔
