اسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا، صحافیوں پر بدترین تشدد، وزارت داخلہ کی صحافیوں سے غیر مشروط معافی۔
اسلام آباد :— وفاقی دارالحکومت میں اس وقت صورتحال سنگین ہوگئی جب پولیس نے نیشنل پریس کلب کے باہر آزاد کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی کے مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر بدترین تشدد کیا اور بعدازاں پریس کلب کے احاطے میں بھی داخل ہوکر صحافیوں کو نشانہ بنایا۔ اس واقعے نے نہ صرف صحافی برادری بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی رہنماؤں کو بھی شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی آزاد کشمیر کے کارکنان اسلام آباد میں اپنے مطالبات کے حق میں نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔ اس دوران مختلف میڈیا ہاؤسز کے نمائندے موقع پر موجود تھے تاکہ احتجاج کی کوریج کرسکیں۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان کشیدگی بڑھی تو پولیس نے طاقت کا استعمال شروع کیا جس کا پہلا نشانہ صحافی بنے۔
نیشنل پریس کلب کے جنرل سیکرٹری شیراز گردیزی کے مطابق پولیس اہلکاروں نے صحافیوں کو کوریج سے روکنے کے بجائے اُن پر حملہ کیا، اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے کیمرے تک توڑ دیے۔
مزید یہ کہ پولیس اہلکار نیشنل پریس کلب کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوئے، دیواریں پھلانگیں اور کیفے ٹیریا میں بیٹھے صحافیوں کو بھی زد و کوب کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق پولیس اہلکاروں نے کھانے کی میزیں اُلٹائیں، سامان توڑا اور متعدد صحافیوں کو زخمی کردیا۔
صحافتی اداروں کا ردِعمل
اسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا کے بعد صحافی تنظیموں میں غم و غصہ پھیل گیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کے صدر افضل بٹ نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا:
یہ تاریخ کا بدترین واقعہ ہے، بری سے بری ڈکٹیٹر شپ میں بھی صحافیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا۔ اگر پولیس کو کسی مطلوب شخص کی تلاش تھی تو انہیں پریس کلب انتظامیہ سے رابطہ کرنا چاہیے تھا، دھاوا بولنے اور تشدد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اسی طرح کراچی پریس کلب کے صدر فاضل جمیلی نے بھی اسلام آباد پولیس کے رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اُن کا کہنا تھا کہ:
اسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا اور حرمت کی پامالی ناقابل قبول ہے۔ پولیس کے اس اقدام نے آئین اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات ہونی چاہییں اور ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہوگا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے بھی واقعے پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ:
پریس کلب میں پولیس کا دھاوا بنیادی انسانی حقوق اور آزادیٔ صحافت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ اس واقعے کی فوری انکوائری ہونی چاہیے اور ذمہ دار اہلکاروں کو معطل کرکے اُن کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
آزاد کشمیر میں کشیدگی، حکومتی وفد کا جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کا آغاز
حکومتی موقف اور معافی
واقعے کے کچھ دیر بعد وزیرِ مملکت طلال چوہدری نیشنل پریس کلب (islamabad press club)پہنچے اور ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں سے معافی مانگی۔
طلال چوہدری نے کہا:
"میں وزارت داخلہ اور اسلام آباد پولیس کی طرف سے صحافیوں سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں۔ اسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجھے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بھیجا ہے اور حکومت صحافیوں کی قربانیوں اور خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔”
انہوں نے وعدہ کیا کہ حکومت اس واقعے کی تحقیقات کرے گی اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی۔
پس منظر
پاکستان میں آزادیٔ صحافت پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند برسوں میں صحافیوں پر حملے، مقدمات اور دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ نیشنل پریس کلب کو ہمیشہ آزادیٔ اظہار کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن اسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا نے صحافتی برادری کو شدید صدمے سے دوچار کردیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں بھی کئی مواقع پر صحافیوں کو احتجاج یا مظاہروں کی کوریج کے دوران پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا، مگر پریس کلب جیسے ادارے پر براہِ راست دھاوا بولنا ایک غیر معمولی اور تشویشناک پیش رفت ہے۔
اپوزیشن اور سیاسی ردِعمل
متعدد اپوزیشن رہنماؤں نے بھی اسلام آباد پولیس کا نیشنل پریس کلب پر دھاوا کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت صحافیوں کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت آزادیٔ اظہار کی بات کرتی ہے، دوسری طرف پولیس صحافیوں پر تشدد کرکے اُن کے بنیادی حقوق سلب کرتی ہے۔
مطالبات
صحافتی تنظیموں نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ:
نیشنل پریس کلب پر حملے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کی جائے۔
ذمہ دار پولیس افسران کو معطل اور گرفتار کیا جائے۔
متاثرہ صحافیوں کو فوری طور پر معاوضہ اور علاج فراہم کیا جائے۔
مستقبل میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے جامع پالیسی بنائی جائے۔
اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب پر پولیس کے دھاوے اور صحافیوں پر تشدد کے اس واقعے نے ملک بھر میں آزادیٔ صحافت پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ یہ معاملہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ اس بات کا اظہار ہے کہ ریاستی ادارے کس حد تک طاقت کا بے جا استعمال کرسکتے ہیں۔
اگر حکومت نے اس واقعے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو یہ نہ صرف پاکستان میں آزادیٔ صحافت کے لیے نقصان دہ ہوگا بلکہ عالمی سطح پر بھی ملک کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچائے گا۔
This is madness. Islamabad Police @ICT_Police stormed into the Press Club building and brutally attacked protesters over the ongoing AJK dispute. First, injustice was done to our Kashmiri brothers; second, it showed that in the eyes of the government, even a sacred institution… pic.twitter.com/2FsYbOWuQq
— Azaz Syed (@AzazSyed) October 2, 2025