اسلام آباد ہائی کورٹ میں بحران کی گونج — جسٹس بابر ستار کا خط اور عدلیہ کی سمت پر سوالات, فل کورٹ اجلاس سے قبل جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ پیش کردی
اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیا عدالتی سال شروع ہوتے ہی ایک غیر معمولی ہلچل دیکھنے میں آئی ہے۔ چ کی جانب سے بلائی گئی فل کورٹ میٹنگ سے محض ایک روز پہلے جسٹس بابر ستار نے ایک خط تحریر کر کے عدلیہ کے اندرونی معاملات، انتظامی فیصلوں اور عدالتی آزادی کو لاحق خطرات پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔ یہ خط نہ صرف ساتھی ججوں کے لیے بلکہ عوامی سطح پر بھی عدلیہ کے کردار اور مستقبل پر بحث کو جنم دے چکا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے انتظامی فیصلوں پر تحفظات ظاہر کیے ہوں، تاہم اس بار معاملہ زیادہ سنگین اس لیے قرار دیا جا رہا ہے کہ یہ اختلافات ایک باضابطہ فل کورٹ میٹنگ کے موقع پر سامنے آئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ ایک ایسے وقت میں ابھری ہے جب عوام پہلے ہی عدلیہ سے مایوس دکھائی دیتے ہیں اور عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے کے لیے سنجیدہ اصلاحات کی ضرورت ہے۔
فل کورٹ میٹنگ کا پس منظر
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہر سال نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ میٹنگ بلائی جاتی ہے۔ ان اجلاسوں میں عام طور پر عدالت کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے، آئندہ کے لیے ترجیحات طے کی جاتی ہیں اور انتظامی امور پر اجتماعی بحث کی جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ججوں کو فل کورٹ اجلاس میں شرکت کے نوٹس جاری کیے۔
تاہم اجلاس سے ایک دن پہلے ہی جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان کی جانب سے خطوط لکھے گئے جنہوں نے معاملے کی نوعیت بدل دی۔ خاص طور پر جسٹس بابر ستار کا خط میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا، کیونکہ اس میں انہوں نے کھل کر عدالتی بحران اور انتظامی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی۔
جسٹس بابر ستار کا خط — ایک چارج شیٹ؟
جسٹس بابر ستار کے خط کو کئی حلقوں میں چیف جسٹس کے خلاف ایک باضابطہ چارج شیٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ خط میں نہ صرف موجودہ انتظامی رویے پر اعتراضات اٹھائے گئے بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اپنی اصل آئینی ذمہ داریوں سے دور ہو چکی ہے۔
بنیادی حقوق کا تحفظ کمزور ہوا
جسٹس ستار کے مطابق آئین نے ہائی کورٹ کو عوام کے بنیادی حقوق کا محافظ بنایا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ عدالتی رویہ واقعی عوام کو ریاستی طاقت کے غلط استعمال سے بچا رہا ہے؟ ان کے بقول عوام کی نظر میں ہائی کورٹ وہ کردار ادا نہیں کر رہی جو اس پر آئینی طور پر لازم ہے۔
ماتحت عدلیہ پر نگرانی میں ناکامی
جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ میں یہ بھی نشاندہی کی کہ اسلام آباد کی ضلعی عدلیہ میں تعیناتیوں کا نظام غیر شفاف ہے۔ اکثر جج ڈیپوٹیشن پر آتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ضلعی عدلیہ مستحکم ادارہ بننے کے بجائے ایک "میوزیکل چیئر” کا کھیل لگتی ہے۔ آئین کے تحت ہائی کورٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ماتحت عدلیہ کو آزاد، غیر جانبدار اور خودمختار ادارہ بنائے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔
مقدمات کی تقسیم میں شفافیت کا فقدان
چارج شیٹ میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی جانب سے مقدمات کی تقسیم اور روسٹر سازی کے عمل میں شفافیت نہیں ہے۔ بعض ججوں کو مستقل طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے، جبکہ تبادلہ شدہ یا ایڈیشنل ججوں کو زیادہ مقدمات دیے جاتے ہیں۔ جسٹس بابر ستار کے مطابق یہ طرزِ عمل ادارہ جاتی اصولوں کے خلاف ہے اور ججوں کے مابین ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔
انتظامی اختیارات کا مبینہ غلط استعمال
جسٹس ستار نے کہا کہ چیف جسٹس کے دفتر نے بعض مواقع پر عدالتی احکامات کے باوجود مقدمات کی فہرست جاری نہیں کی۔ مقدمات کو ایک عدالت سے دوسری عدالت منتقل کرنا، روسٹر میں تبدیلیاں کرنا اور بعض ججوں کو ان کے مقدمات سے الگ کرنا عدالتی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔
کمیٹیوں کی تشکیل پر اعتراضات
جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ میں یہ بھی الزام لگایا کہ انتظامی کمیٹیوں میں سینئر ججوں کو شامل نہیں کیا گیا اور اس کے بجائے نئے یا تبادلہ شدہ ججوں کو فوقیت دی گئی۔ یہ عمل نہ صرف اصولوں کے منافی ہے بلکہ ادارے کی اجتماعی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ججوں کی آزادی پر قدغن
ایک اور سنگین اعتراض یہ تھا کہ چیف جسٹس نے ججوں کے بیرونِ ملک سفر کے لیے این او سی لازمی قرار دیا۔ جسٹس ستار کے مطابق ایسا حکم گویا ججوں کو "ایگزٹ کنٹرول لسٹ” پر ڈالنے کے مترادف ہے، حالانکہ قانون چیف جسٹس کو ایسا کوئی اختیار نہیں دیتا۔
عدالتی آزادی اور ادارہ جاتی اصول
جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ میں بارہا اس بات پر زور دیا کہ عدالتی آزادی کسی بھی جمہوری نظام کا بنیادی ستون ہے۔ ان کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بعض فیصلے اور انتظامی اقدامات ایسے ہیں جو عدالتی آزادی کو براہِ راست سبوتاژ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ججز کو غیر فعال کرنے یا عدلیہ کو تقسیم کرنے کی کوششیں آمریت کے ادوار میں بھی کی جاتی رہی ہیں، لیکن جمہوری دور میں ایسے اقدامات عدالتی ادارے کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں۔
کارکردگی کے اعداد و شمار پر اعتراض
جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ میں یہ الزام لگایا کہ ہائی کورٹ کی انتظامیہ نے عدالتی کارکردگی کے ایسے اعداد و شمار جاری کیے جن کا مقصد یہ تاثر دینا تھا کہ بعض جج غیر معمولی طور پر فعال ہیں جبکہ دیگر جج کم کام کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر کوئی محقق تفصیل سے جائزہ لے تو حقیقت مختلف سامنے آئے گی۔
جسٹس بابر ستار(justice babar sattar)نے تجویز دی کہ ججوں کی کارکردگی جانچنے کا کوئی متفقہ اور شفاف طریقہ وضع کیا جائے تاکہ سب کو برابر کا موقع ملے اور ادارہ بہتر سمت میں آگے بڑھے۔

خط کے پیچھے محرکات اور ردعمل
یہ سوال بھی اہم ہے کہ جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ فل کورٹ میٹنگ سے عین قبل کیوں دی؟ مبصرین کے مطابق اس کا مقصد یہ تھا کہ اجلاس میں محض رسمی گفتگو نہ ہو بلکہ عدلیہ کے اندرونی مسائل کو سامنے لا کر ان پر عملی بحث کی جائے۔
بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے خطوط سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے، کیونکہ عوام کے سامنے یہ تاثر جاتا ہے کہ عدالت کے جج خود ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے۔ دوسری طرف کچھ ماہرین اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہیں اور اسے ادارے کے اندرونی مکالمے کو فروغ دینے کی کوشش سمجھتے ہیں۔
چھبیسویں آئینی ترمیم: سپریم کورٹ فل کورٹ تنازع اور جسٹس منصور علی شاہ کا کھلا خط
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی پوزیشن
اب سب کی نظریں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر پر ہیں کہ وہ ان اعتراضات کو کس طرح لیتے ہیں۔ کیا وہ انہیں تنقید سمجھ کر نظرانداز کریں گے یا ان پر غور کرتے ہوئے اصلاحات کا آغاز کریں گے؟ فل کورٹ میٹنگ میں یہ سوال مرکزی حیثیت اختیار کر سکتا ہے۔
مستقبل کے امکانات
اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ اندرونی بحران محض ایک ادارے کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کے عدالتی نظام کی ساکھ سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ججوں کے مابین اعتماد کی کمی برقرار رہی اور انتظامی فیصلے شفافیت کے بغیر ہوتے رہے تو عدلیہ پر عوام کا اعتماد مزید کم ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب، اگر جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ اصلاحات کی بنیاد بنتا ہے اور جج اجتماعی طور پر ایک نئے لائحہ عمل پر متفق ہوتے ہیں تو یہ نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ بلکہ ملک کے عدالتی نظام کے لیے ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔
جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ عدلیہ کے اندر چھپی ہوئی دراڑوں کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ دراڑیں وقتی طور پر تو چھپ سکتی ہیں لیکن انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایک آزاد عدلیہ ہی ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کی ضمانت ہوتی ہے۔ اگر عدالتیں اپنے آئینی فرائض سے غافل ہو جائیں تو جمہوری نظام کمزور ہو جاتا ہے۔
یہ دیکھنا باقی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج اس چارج شیٹ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیا یہ خط محض ایک احتجاجی دستاویز ہوگا یا پھر یہ عدالتی اصلاحات کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا؟ وقت ہی اس کا جواب دے گا۔
Justice Babar Sattar has set the court record straight. He has exposed the demolition squad in Islamabad High Court. Should we be expecting a well written and a judge like response in english from Chief Justice Islamabad High Court? pic.twitter.com/U9696m5d4n
— Matiullah Jan (@Matiullahjan919) September 2, 2025
Comments 1