اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس: اختلافات، خطوط اور متنازعہ منظوری، پریکٹس اینڈ پروسیجر اور اسٹیبلشمنٹ رولز اکثریت رائے سے منظور
اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے عدالتی سال کے آغاز پر بلائی گئی فل کورٹ میٹنگ ایک غیر معمولی صورتحال کے ساتھ سامنے آئی۔ اس اجلاس میں جہاں ایک طرف اہم قواعد اکثریتی رائے سے منظور کر لیے گئے، وہیں دوسری جانب بعض ججوں نے کھل کر اختلاف کیا اور چیف جسٹس کو لکھے گئے خطوط اور اندرونی تحفظات نے اجلاس کی فضا کو مزید کشیدہ بنا دیا۔ ذرائع کے مطابق اس میٹنگ نے عدلیہ کے اندرونی اختلافات کو ایک بار پھر نمایاں کر دیا ہے۔
ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس سے قبل ہی جسٹس بابر ستار اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو خطوط لکھ کر اجلاس کے ایجنڈے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ ان خطوط میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ اجلاس کا ایجنڈا محض رسمی کارروائی نہ ہو بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی اور عدالتی خرابیوں پر کھل کر بحث ہو۔
جسٹس بابر ستار نے اپنے خط میں عدالتی آزادی، مقدمات کی تقسیم، کمیٹیوں کی تشکیل اور چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کے مبینہ غلط استعمال جیسے حساس معاملات پر سنگین سوالات اٹھائے تھے۔ اسی طرح جسٹس اعجاز اسحاق نے بھی چیف جسٹس کے اقدامات پر تحفظات ظاہر کیے اور کہا کہ ادارہ جاتی ہم آہنگی کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔
تاہم فل کورٹ اجلاس میں یہ خطوط زیرِ بحث نہیں آئے اور ان کے مندرجات کو نظر انداز کر دیا گیا، جس سے اختلافی ججوں میں مزید بے چینی پیدا ہوئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ فل کورٹ اجلاس سے قبل جسٹس بابر ستار نے چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ پیش کردی
اکثریتی فیصلے سے قواعد کی منظوری
ذرائع کے مطابق ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں اسٹیبلشمنٹ رولز اور پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کو بغیر تفصیلی ڈسکشن کے اکثریتی ووٹ سے منظور کر لیا گیا۔
11 ججوں میں سے 6 ججوں نے منظوری کے حق میں ووٹ دیا جبکہ
5 ججوں نے اس کی مخالفت کی۔
حق میں ووٹ دینے والے ججز:
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر
جسٹس ارباب طاہر
جسٹس خادم حسین سومرو
جسٹس اعظم خان
جسٹس محمد آصف
جسٹس انعام امین منہاس
مخالفت کرنے والے ججز:
جسٹس محسن اختر کیانی
جسٹس طارق جہانگیری
جسٹس بابر ستار
جسٹس اعجاز اسحاق خان
جسٹس ثمن رفعت امتیاز
یہ تقسیم واضح طور پر دکھاتی ہے کہ ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کے اندر ایک بڑی تعداد قواعد کی منظوری کے حق میں نہیں تھی، تاہم اکثریت نے فیصلہ دے کر ان قواعد کو لاگو کر دیا۔
مشاورت کی استدعا مسترد
ذرائع کے مطابق ایک جج نے تجویز دی کہ رولز پر مزید مشاورت کی جائے اور فل کورٹ میٹنگ کو کچھ دن کے لیے موخر کر دیا جائے تاکہ سب ججوں کی آراء شامل ہو سکیں۔ تاہم یہ استدعا مسترد کر دی گئی اور اسی اجلاس میں قواعد منظور کر لیے گئے۔ اس فیصلے نے اختلاف کرنے والے ججوں کو مزید مایوس کیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ ان کے تحفظات کو اہمیت نہیں دی گئی۔
خطوط کو زیرِ بحث نہ لانا — ایک خاموش پیغام؟
ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں جسٹس بابر ستار اور جسٹس اعجاز اسحاق کے خطوط کو زیرِ بحث نہ لانے کے فیصلے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ ایک خاموش پیغام ہے کہ اعلیٰ عدالتی سطح پر کھلے عام تنقید اور اختلاف کو برداشت کرنے کا رجحان محدود ہوتا جا رہا ہے۔
کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان خطوط پر اجلاس میں بات کی جاتی تو یہ عدلیہ کے اندرونی مسائل پر سنجیدہ مکالمے کا موقع فراہم کرتا۔ لیکن ایسا نہ ہونے سے اختلافی ججوں کے خدشات مزید تقویت پکڑ گئے ہیں کہ عدالت کے اندر شفافیت اور شمولیت کا فقدان ہے۔
دیگر فیصلے: عمارت اور فیملی کورٹ کے اختیارات
اجلاس میں دو اور اہم فیصلے بھی کیے گئے:
ہائی کورٹ بلڈنگ کے نقائص: عدالت کی عمارت میں موجود تکنیکی اور ساختی نقائص کا معاملہ حکومت کو بھیج دیا گیا تاکہ اس پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ یہ فیصلہ اتفاق رائے سے کیا گیا۔
فیملی کورٹ کے ججوں کے اختیارات: اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے کیا گیا کہ فیملی کورٹ کے ججوں کے اختیارات کو مزید واضح کیا جائے تاکہ وہ بہتر انداز میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
یہ دونوں فیصلے کم تنازعہ والے معاملات تھے اور ان پر سب جج متفق دکھائی دیے۔
تقسیم کی عکاسی(islamabad high court judges)
یہ اجلاس نہ صرف قواعد کی منظوری بلکہ ججوں کے مابین بڑھتی ہوئی تقسیم کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ 11 میں سے 5 ججوں کا کھل کر مخالفت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک واضح تقسیم موجود ہے۔
یہ تقسیم محض شخصی اختلاف نہیں بلکہ انتظامی فیصلوں، شفافیت اور عدالتی آزادی سے متعلق بنیادی سوالات پر مبنی ہے۔
عوامی تاثر اور عدالتی ساکھ
ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کے اندرونی اختلافات کے منظر عام پر آنے سے عوامی سطح پر بھی عدلیہ کی ساکھ پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ ایک طرف عوام پہلے ہی عدلیہ کی کارکردگی سے مایوس ہیں، دوسری طرف ججوں کے مابین اس قدر اختلاف اس تاثر کو مزید گہرا کر سکتا ہے کہ عدلیہ متحد نہیں ہے اور داخلی بحران کا شکار ہے۔
آئندہ کا منظرنامہ
اب سوال یہ ہے کہ ان اختلافات کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کس سمت میں جائے گی۔ کیا چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اکثریتی فیصلے کے ساتھ ادارہ چلانے پر اصرار کریں گے یا وہ اختلافی ججوں کے خدشات کو بھی شامل کرنے کی کوشش کریں گے؟
قانونی ماہرین کے مطابق اگر یہ اختلافات کھلے مکالمے کے بجائے مزید دبا دیے گئے تو یہ اندرونی کشمکش آنے والے دنوں میں زیادہ شدت اختیار کر سکتی ہے۔ لیکن اگر چیف جسٹس اور دیگر جج مل بیٹھ کر شفاف طریقہ کار اپنائیں تو یہ بحران عدلیہ کو مزید مضبوط کرنے کا موقع بھی بن سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس ایک ایسی میٹنگ ثابت ہوئی جس نے عدلیہ کے اندرونی اختلافات کو بے نقاب کر دیا۔ اکثریتی ووٹ سے قواعد کی منظوری، خطوط کو زیرِ بحث نہ لانا اور مشاورت کی تجویز کو رد کرنا اس بات کا عندیہ ہے کہ ادارہ اس وقت ایک تقسیم کی کیفیت میں ہے۔
ہائی کورٹ کے فل کورٹ اجلاس کی یہ صورتحال نہ صرف ججوں کے لیے بلکہ عوام کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ عدلیہ کی آزادی اور شفافیت ہی عوام کے اعتماد کی بنیاد ہے۔ آنے والے وقت میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا یہ اختلاف وقتی ثابت ہوتے ہیں یا پھر یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی تاریخ میں ایک نئے بحران کی بنیاد ڈالیں گے۔