اسلام آباد ایس پی خودکشی: سینئر پی ایس پی افسر عدیل اکبر نے گولی مار کر جان دے دی
اسلام آباد ایس پی خودکشی کا افسوسناک واقعہ وفاقی دارالحکومت میں پیش آیا ہے جس نے اعلیٰ سرکاری اور پولیس حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ پولیس فورس میں کام کرنے والے افسران کو درپیش شدید ذہنی دباؤ اور پیشہ ورانہ چیلنجز کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔ سینئر پی ایس پی افسر اور ایس پی آئی نائن، عدیل اکبر نے مبینہ طور پر خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ یہ خبر نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری پولیس برادری کے لیے گہرا صدمہ ہے۔
واقعہ کی تفصیلات: کیا ہوا؟
ابتدائی معلومات کے مطابق، ایس پی عدیل اکبر اسلام آباد میں ایک نجی ہوٹل کے قریب موجود تھے جب انہوں نے اپنے سٹاف سے سرکاری پسٹل لے کر خود کو سینے پر گولی مار لی۔ فائر کی آواز سن کر ساتھی اہلکار فوری طور پر ان کے پاس پہنچے اور انہیں شدید زخمی حالت میں اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال منتقل کیا گیا۔ تاہم، وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی انتقال کر گئے۔
پولیس حکام نے واقعے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس چیز نے ایک سینئر افسر کو یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔ یہ ایک دل دہلا دینے والا واقعہ ہے جو اسلام آباد ایس پی خودکشی کے عنوان سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے اور اس پر گہری توجہ کی ضرورت ہے۔
اسلام آباد ایس پی خودکشی اور سول سروسز میں بڑھتا ہوا دباؤ
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی اعلیٰ سرکاری افسر یا پولیس افسر نے مبینہ طور پر خودکشی جیسا انتہائی قدم اٹھایا ہو۔ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جو پاکستانی سول سروسز، بالخصوص پولیس سروسز میں کام کرنے والے افراد پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذہنی صحت کے چیلنجز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایس پی عدیل اکبر کا المناک انجام ایک بار پھر اس بات کی طرف توجہ مبذول کرواتا ہے کہ سرکاری افسران کو کس قدر مشکل اور دباؤ والے ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔
ذہنی صحت: ایک اہم لیکن نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ
پولیس اہلکاروں اور افسران کو طویل اوقات کار، ناکافی وسائل، سیاسی دباؤ اور عوام کے شدید تنقیدی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان عوامل کے مجموعے سے اکثر افسران شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سرکاری حلقوں میں ذہنی صحت کے مسائل کو اکثر کمزور یا شرمناک سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے افسران کھل کر اپنی مشکلات کا اظہار نہیں کر پاتے۔ اسلام آباد ایس پی خودکشی کا حالیہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دماغی صحت ایک ایسا مسئلہ ہے جسے مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے نظام کو ایسے میکانزم متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے جہاں سینئر افسران بھی بغیر کسی خوف کے پیشہ ورانہ مشاورت اور ذہنی صحت کی معاونت حاصل کر سکیں۔ سول سروسز کے تربیتی پروگراموں میں بھی دباؤ برداشت کرنے اور ذہنی صحت سے نمٹنے کے لیے مؤثر تربیت کو شامل کرنا لازمی ہے۔
اسلام آباد ایس پی خودکشی کے بعد حکومتی ردعمل اور تحقیقاتی عمل
اسلام آباد ایس پی خودکشی کے واقعے کے بعد، وفاقی حکومت اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے گہرے دکھ اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ آئی جی اسلام آباد نے ایس پی عدیل اکبر کی موت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے واقعہ کی مکمل اور شفاف تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق، تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، جس میں ذاتی زندگی کے مسائل، دفتری دباؤ، اور دیگر ممکنہ وجوہات شامل ہیں۔
یہ وقت ہے کہ پولیس سروس آف پاکستان اپنے افسران کی فلاح و بہبود اور ذہنی صحت کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ صرف تحقیقات ہی کافی نہیں، بلکہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت ہے جو پولیس فورس کے اندر اعتماد اور تعاون کا ماحول پیدا کرے۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ اسلام آباد ایس پی خودکشی کا یہ افسوسناک واقعہ انتظامیہ کو اپنے افسران کی ذہنی اور جذباتی صحت پر سنجیدگی سے توجہ دینے پر مجبور کرے گا۔
مستقبل کا لائحہ عمل: اصلاحات کی ضرورت
پاکستان میں سول سروسز کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور افسران کے کام کاج کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر اصلاحات ناگزیر ہیں۔ یہ اصلاحات صرف تنخواہوں میں اضافے تک محدود نہیں ہونی چاہئیں بلکہ افسران کے لیے ایک صحت مند اور معاون پیشہ ورانہ ماحول کی تشکیل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
ذہنی صحت کی خدمات: پولیس افسران کے لیے گمنام کونسلنگ اور ذہنی صحت کی معاونت کی خدمات کا قیام۔
دباؤ میں کمی: کام کے اوقات کار کو معقول بنانا اور غیر ضروری دباؤ کو کم کرنے کے لیے پالیسیوں پر عمل درآمد۔
پیشہ ورانہ ترقی: قیادت اور دباؤ کے انتظام پر باقاعدہ تربیتی پروگرام۔
ایس پی عدیل اکبر کی زندگی کا یہ المناک انجام اسلام آباد ایس پی خودکشی کے واقعے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اور یہ ایک تلخ یاد دہانی ہے کہ ہمارے قومی اداروں کو اپنے ہیروز کی جسمانی اور ذہنی صحت کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔
