اسرائیل کی غزہ پر بمباری — انسانیت لہو لہان
فلسطین ایک بار پھر آگ اور خون میں نہا گیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے حکم کے بعد اسرائیل کی غزہ پر بمباری کے نتیجے میں 46 بچوں سمیت 100 سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے۔
یہ حملے گزشتہ رات سے مسلسل جاری ہیں، اور غزہ کی فضا اب بھی دھماکوں سے گونج رہی ہے۔
نیتن یاہو کا حکم — "شدید اور فوری کارروائی”
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، نیتن یاہو نے منگل کے روز فوج کو حکم دیا کہ وہ غزہ پر شدید اور فوری حملے کرے۔
یہ فیصلہ مبینہ طور پر حماس کی جانب سے جنگ بندی کی "خلاف ورزی” کے بعد کیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ رفح کے قریب فوجیوں پر حملہ ہوا تھا، جس کے بعد “جوابی کارروائی” کی گئی۔
تاہم، انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ حملے “جوابی کارروائی” نہیں بلکہ بے گناہ شہریوں پر اجتماعی سزا ہیں۔
اسپتالوں اور رہائشی علاقوں پر حملے
منگل کی رات اسرائیل کی غزہ پر بمباری میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ غزہ شہر اور النصیرات کیمپ رہا۔
ایک میزائل الشفاء اسپتال کے پیچھے گرا، جس سے درجنوں زخمیوں کو اسپتال تک پہنچانا مزید مشکل ہو گیا۔

غزہ کی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں 104 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں،
جن میں 46 بچے اور 28 خواتین شامل ہیں، جب کہ 253 افراد زخمی ہوئے۔
فلسطینی صحافی اور ان کی اہلیہ بھی شہید
غزہ کے علاقے النصیرات میں ایک فلسطینی صحافی محمد المنیراوی اور ان کی اہلیہ بھی فضائی حملے میں شہید ہو گئے۔
وہ پچھلے کئی ہفتوں سے ایک خیمے میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
ان کے ساتھی صحافیوں نے انہیں “غزہ کی آواز” قرار دیا، جو آخری لمحے تک دنیا کو ظلم کی خبریں پہنچاتے رہے۔
انسانی المیہ — قبرستان بھر گئے، اسپتال خالی
غزہ کے اسپتالوں میں لاشوں اور زخمیوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ عملہ تھک چکا ہے، بجلی ختم ہو رہی ہے اور طبی سامان ناپید ہے۔
الشفاء اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے الجزیرہ کو بتایا:
“ہم صرف شہیدوں کی شناخت کر رہے ہیں، علاج کرنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے۔”
اسرائیل کی غزہ پر بمباری نے ایک بار پھر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے، لیکن عالمی ردعمل اب بھی خاموش ہے۔
حماس کا ردعمل — “ہم ملوث نہیں تھے”
اسرائیلی حکومت کے مطابق، یہ حملے “رفح کے قریب حماس کے حملے” کے جواب میں کیے گئے۔
تاہم، حماس نے واقعے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔
ترجمان نے کہا:
“یہ اسرائیل کا بہانہ ہے تاکہ مزید خون بہایا جا سکے۔ ہم نے کوئی کارروائی نہیں کی۔”
امریکہ کا موقف — اسرائیل کی حمایت جاری
امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے بیان دیا کہ اسرائیل کے اقدامات “دفاعی ردعمل” ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “حماس یا کسی گروہ نے اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کیا، جس پر اسرائیل نے فطری طور پر جواب دیا۔”
تاہم، عالمی مبصرین کے مطابق، امریکہ کی یہ پالیسی اسرائیل کی بے لگام جارحیت کو مزید ہوا دے رہی ہے۔
عالمی ردعمل — اقوام متحدہ کی تشویش
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ میں جاری بمباری پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ “بچوں اور خواتین پر حملے کسی بھی جنگی اصول کے خلاف ہیں، اور فوری طور پر فائر بندی ہونی چاہیے۔”
یورپی یونین، قطر، ترکیہ اور اردن نے بھی اسرائیل کی غزہ پر بمباری کی مذمت کی ہے اور انسانی امداد کے راستے کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔
غزہ کے عوام — “ہم کہاں جائیں؟”
رفح، خان یونس، جبالیا، النصیرات — ہر جگہ بچوں کی چیخیں اور ملبے کے ڈھیر نظر آ رہے ہیں۔
ایک فلسطینی خاتون نے الجزیرہ کو بتایا:

“میرے تین بچے شہید ہو گئے، اب میں صرف اللہ سے ملاقات کا انتظار کر رہی ہوں۔”
غزہ کے لوگ اب بھی امید رکھتے ہیں کہ دنیا ان کی آواز سنے گی،
مگر ہر رات اسرائیل کی غزہ پر بمباری ان امیدوں کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔
اسرائیلی دعوے، فلسطینی حقیقت
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس کے حملوں کا نشانہ “حماس کے ٹھکانے” ہیں،
مگر عینی شاہدین کے مطابق،
حملوں کا سب سے زیادہ اثر شہری آبادی، اسپتالوں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں پر پڑ رہا ہے۔
یہ حملے عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں،
لیکن بین الاقوامی برادری اب بھی صرف “تشویش” کے بیانات پر اکتفا کر رہی ہے۔
غزہ کے زخم گہرے، ضمیر خاموش
اسرائیل کی غزہ پر بمباری نہ صرف فلسطینیوں کا المیہ ہے بلکہ پوری انسانیت کا امتحان ہے۔
جب 46 معصوم بچے ایک رات میں ملبے تلے دب جائیں اور دنیا خاموش رہے، تو یہ صرف جنگ نہیں بلکہ انسانیت کی شکست ہے۔
غزہ کے شہری دنیا سے صرف ایک مطالبہ کر رہے ہیں:
“ہمیں جینے دو، ہم صرف سانس لینا چاہتے ہیں۔”
غزہ جنگ بندی دوبارہ بحال، اسرائیل کے حملے میں 42 فلسطینی شہید









