اسرائیل کا واضح مؤقف: غزہ کی زمین پر ترک فوجی قدم نہیں رکھے گا
اسرائیل کا ترکی کو دوٹوک پیغام — غزہ میں ترک فوج کا کوئی امکان نہیں
اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کی ترجمان شوش بیڈروسیئن نے ایک پریس بریفنگ کے دوران واضح کیا کہ
غزہ میں ترک فوج کی کسی بھی صورت میں تعیناتی قبول نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکی منصوبے کے تحت بین الاقوامی امن فورس قائم بھی کی گئی، تو ترکی کے فوجی اس فورس کا حصہ نہیں بن سکیں گے۔
امریکی منصوبہ اور اسرائیلی تحفظات
گزشتہ ہفتے امریکا نے ایک مجوزہ منصوبہ پیش کیا تھا جس کے مطابق
غزہ میں ایک بین الاقوامی امن فورس تعینات کی جائے تاکہ علاقے میں سیکیورٹی کی صورتحال کو مستحکم کیا جا سکے۔
تاہم اسرائیل نے اس منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ
“غزہ میں ترک فوج” کی موجودگی اسرائیل کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے،
لہٰذا کسی بھی صورت میں اس اجازت نہیں دی جائے گی۔
ترجمان نے کہا:
“غزہ کی زمین پر کسی ترک فوجی کا پاؤں نہیں پڑے گا۔ یہ ہماری خودمختاری کا معاملہ ہے۔”
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات — پس منظر
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات گزشتہ کئی برسوں سے کشیدہ ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی بارہا مذمت کی ہے
اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
ترکی کی حکومت نے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر سخت مؤقف اپنایا ہے،
جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر تناؤ بڑھ گیا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اسرائیل کا یہ فیصلہ اسی پس منظر میں آیا ہے
تاکہ ترکی کو پیغام دیا جا سکے کہ غزہ میں مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔
بین الاقوامی امن فورس کا مجوزہ کردار
امریکی منصوبے کے مطابق، امن فورس کا مقصد غزہ میں
جنگ بندی کی نگرانی اور انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔
تاہم اسرائیل نے اس منصوبے میں ترکی کے کردار کو مسترد کر دیا ہے۔
اسرائیل کے مطابق، ترکی کا موجودہ رویہ غیرجانبدار نہیں،
اس لیے اس کے فوجی امن فورس میں شامل نہیں ہو سکتے۔
اسرائیلی اخبار "ہارٹز” کے مطابق،
تل ابیب نے واشنگٹن کو تحریری طور پر آگاہ کیا ہے کہ
“غزہ میں ترک فوج” کی شمولیت کسی صورت قبول نہیں ہوگی۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار کا بیان
گزشتہ ماہ ہنگری میں پریس کانفرنس کے دوران
اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈیون سار نے بھی واضح مؤقف اختیار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ:

“جو ممالک غزہ میں اپنی افواج بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں،
انہیں اسرائیل کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنانا چاہیے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ترکی نے صدر اردوان کی قیادت میں
اسرائیل کے خلاف جارحانہ اور متعصبانہ مؤقف اختیار کیا ہے،
اسی وجہ سے غزہ میں ترک فوج کی موجودگی کسی طور پر ممکن نہیں۔
عالمی ردِعمل اور تجزیہ
بین الاقوامی ماہرین کے مطابق،
اسرائیل کے اس مؤقف سے ترکی کے ساتھ سفارتی تعلقات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں۔
ترکی طویل عرصے سے غزہ کے عوام کی حمایت کرتا آیا ہے
اور اس نے اسرائیلی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی ہے۔
امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ
اگر اسرائیل “غزہ میں ترک فوج” کی مخالفت پر قائم رہتا ہے،
تو واشنگٹن کے مجوزہ امن منصوبے کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں
غزہ کی موجودہ صورتحال
غزہ اس وقت بدترین انسانی بحران کا شکار ہے۔
ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں اور
علاقے میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت ہے۔
ترکی نے متعدد بار امدادی سامان بھیجنے کی کوشش کی
لیکن اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے یہ امداد اکثر تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔
ترکی کے حکومتی ذرائع کے مطابق،
اگر موقع ملا تو وہ غزہ میں تعمیرِ نو کے منصوبے میں حصہ لینے کے لیے تیار ہے،
لیکن اسرائیل کے تازہ بیان کے بعد یہ ممکن نظر نہیں آتا۔
اسرائیل کے مؤقف کے ممکنہ اثرات
سیاسی ماہرین کے مطابق،
اسرائیل کی جانب سے “غزہ میں ترک فوج” کی مخالفت
درحقیقت ترکی کی بڑھتی ہوئی علاقائی اثر و رسوخ کو روکنے کی کوشش ہے۔
اس فیصلے سے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی سفارتی حرکیات متاثر ہوں گی
بلکہ نیٹو اتحاد کے اندر بھی اختلافات پیدا ہو سکتے ہیں،
کیونکہ ترکی نیٹو کا اہم رکن ہے۔
ترک صدر کی اسرائیل کی حمایت پر تنقید: جرمن چانسلر کے سامنے سوالیہ نشان
اسرائیل کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ
غزہ میں ترک فوج کی شمولیت کسی بھی سطح پر ممکن نہیں۔
تل ابیب کا مؤقف ہے کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے،
جبکہ ترکی اسے فلسطینی عوام کی حمایت کا اخلاقی فریضہ سمجھتا ہے۔
یہ تنازع مستقبل میں مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔










Comments 1