خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں: آڈٹ رپورٹ میں سنگین انکشافات
پاکستان ایک طویل عرصے سے پولیو کے خاتمے کے لیے مسلسل جدوجہد کر رہا ہے۔ لاکھوں ڈالرز کے فنڈز، ہزاروں ورکرز اور سکیورٹی اہلکار اس مقصد کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تاہم حال ہی میں سامنے آنے والی ایک آڈٹ رپورٹ نے سب کو حیران کر دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں نہ صرف معمولی غلطیاں ہیں بلکہ سنگین نوعیت کی ہیں جو فنڈز کے شفاف استعمال پر بڑے سوالات کھڑے کرتی ہیں۔
آڈٹ رپورٹ کے اہم نکات
انسداد پولیو مہم کے حوالے سے مالی سال 2022-23 کی آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فنڈز کی تقسیم اور استعمال میں بڑے پیمانے پر مسائل دیکھنے میں آئے۔ مثال کے طور پر:
سکیورٹی اہلکاروں کو زیادہ تعیناتی دکھا کر 64 لاکھ روپے کی غیرقانونی ادائیگی۔
منظور شدہ 4 دن کے بجائے 5 دن پولیو مہم چلانے پر 22 لاکھ روپے اضافی خرچ۔
سکیورٹی چارجز کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث 96 لاکھ روپے بلاوجہ رکے رہے۔
ڈی پی او ہنگو نے 11 ماہ تک پولیو اہلکاروں کو رقم ادا نہیں کی۔
15 کروڑ 12 لاکھ روپے غیر استعمال شدہ پولیو فنڈز واپس کرنے کا ریکارڈ موجود نہیں۔
ٹیکس کٹوتی نہ کرنے کے باعث خزانے کو 30 لاکھ روپے کا نقصان۔
41 لاکھ روپے کی مشکوک دہری ادائیگی۔
سرکاری گاڑیاں موجود ہونے کے باوجود 1 کروڑ 70 لاکھ روپے نجی گاڑیوں کے کرایوں پر خرچ۔
یہ تمام نکات واضح کرتے ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں ایک سنگین مسئلہ ہیں اور اس پر سخت احتساب کی ضرورت ہے۔
پولیو مہمات پر اثرات
پاکستان دنیا کے چند ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو ابھی تک ختم نہیں ہو سکا۔ عالمی ادارہ صحت اور دیگر تنظیمیں اس مقصد کے لیے مسلسل فنڈز فراہم کر رہی ہیں۔ لیکن جب خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں جیسی خبریں سامنے آتی ہیں تو یہ مہم کی ساکھ کو متاثر کرتی ہیں۔ فنڈز کا غلط استعمال نہ صرف وسائل کے ضیاع کا باعث بنتا ہے بلکہ پولیو ٹیموں کی کارکردگی کو بھی متاثر کرتا ہے۔
سکیورٹی اخراجات میں مسائل
رپورٹ کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ زیادہ اہلکار دکھا کر اضافی رقم نکلوائی گئی، اور کئی اضلاع میں ادائیگیاں مہینوں تک مؤخر کی گئیں۔ یہ صورتحال پولیو ٹیموں کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ سکیورٹی کے بغیر ان کا کام ممکن نہیں۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں صرف مالی مسئلہ نہیں بلکہ انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہیں۔
گاڑیوں کے کرایوں میں مشکوک لین دین
ایک اور انکشاف یہ کیا گیا کہ سرکاری محکمے کے پاس پہلے سے گاڑیاں موجود تھیں لیکن اس کے باوجود 1 کروڑ 70 لاکھ روپے نجی گاڑیوں کے کرایوں پر خرچ کیے گئے۔ یہ رقم اگر شفاف انداز میں استعمال ہوتی تو کئی اضلاع میں مزید سہولتیں فراہم کی جا سکتی تھیں۔ اس طرح کی کارروائیاں اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں محض غلطی نہیں بلکہ منظم بدعنوانی کا نتیجہ ہیں۔
حکومتی خزانے کو نقصان
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ٹیکس کٹوتی نہ ہونے کے باعث حکومتی خزانے کو 30 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔ فنڈز کی تقسیم اور حساب کتاب میں اس طرح کی کوتاہیاں قومی خزانے پر براہِ راست اثر ڈالتی ہیں۔ اگر یہ رقم صحیح طریقے سے خرچ ہوتی تو نہ صرف انسداد پولیو مہم مضبوط ہوتی بلکہ سرکاری خزانے پر بھی بوجھ کم ہوتا۔
عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ
پاکستان کے لیے پولیو کا خاتمہ ایک بڑا چیلنج ہے اور عالمی ادارے اس کے لیے فنڈز فراہم کرتے ہیں۔ لیکن جب رپورٹس میں خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں سامنے آتی ہیں تو عالمی برادری کا اعتماد متاثر ہوتا ہے۔ اس سے مستقبل میں فنڈز کی فراہمی میں کمی آ سکتی ہے، جس کا نقصان براہِ راست پولیو ٹیموں اور عوام کو ہوگا۔
عوامی ردعمل
رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے بعد عوامی سطح پر بھی شدید ردعمل سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر لوگوں نے سوال اٹھایا کہ جب ملک پہلے ہی معاشی بحران کا شکار ہے تو اس طرح کے فنڈز کے ساتھ کھیلنا قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں صرف رپورٹوں تک محدود نہیں رہنی چاہئیں بلکہ ان میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
احتساب اور شفافیت کی ضرورت
اس وقت سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ انسداد پولیو فنڈز کے استعمال کے لیے سخت نگرانی اور شفافیت کا نظام بنایا جائے۔ ہر ضلع میں کیے گئے اخراجات کا مکمل ریکارڈ رکھا جائے اور ہر سال آزادانہ آڈٹ رپورٹ شائع کی جائے۔ بصورت دیگر خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں جیسے مسائل بار بار سامنے آتے رہیں گے اور مہم کی کامیابی خطرے میں پڑتی رہے گی۔
مستقبل کے لیے اقدامات
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ اس طرح کی صورتحال سے بچنے کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں:
فنڈز کی تقسیم اور استعمال کا ڈیجیٹل ریکارڈ رکھا جائے۔
ہر ضلع میں فنڈز کے استعمال پر مقامی سطح پر کمیٹی بنائی جائے۔
سکیورٹی اخراجات کا شفاف نظام بنایا جائے۔
عالمی اداروں کے ساتھ براہِ راست شیئرنگ کا طریقہ کار اپنایا جائے۔
غیر ضروری اخراجات پر مکمل پابندی لگائی جائے۔
اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف فنڈز کا ضیاع رکے گا بلکہ انسداد پولیو مہم زیادہ مؤثر ہو گی۔
انسداد پولیو فنڈنگ میں کمی 2025: پاکستان کو عالمی امداد 20 فیصد کم ملنے لگی
آڈٹ رپورٹ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں محض انتظامی کمزوریاں نہیں بلکہ سنگین مالی بدعنوانیاں ہیں۔ اس مسئلے کو نظرانداز کرنے کا مطلب ہے کہ پاکستان پولیو جیسے مرض کے خاتمے کی جنگ میں پیچھے رہ جائے گا۔ حکومت اور اداروں کو فوری طور پر سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فنڈز صحیح جگہ استعمال ہوں اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔
یہ وقت ہے کہ متعلقہ حکام صرف رپورٹ شائع کرنے پر اکتفا نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کریں تاکہ آئندہ اس طرح کی خیبرپختونخوا پولیو فنڈز بے ضابطگیاں دوبارہ جنم نہ لیں۔











Comments 1