مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں انڈین فورسز کی فائرنگ سے چار شہری ہلاک، سماجی رہنما سونم وانگچُک کی گرفتاری، مودی حکومت کے خلاف شدید غم و غصہ
چین کی سرحد کے قریب انڈیا کے زیرانتظام علاقے لداخ میں حالیہ دنوں میں ہونے والے پُرتشدد مظاہروں نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ ان مظاہروں کے دوران انڈین فورسز کی فائرنگ سے چار شہری ہلاک ہو گئے، جن میں ایک سابق فوجی اہلکار بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ اس خطے میں برسوں سے جاری خاموش بے چینی کو منظرِ عام پر لے آیا ہے۔
لداخ کی آبادی روایتی طور پر انڈین حکومتوں کی حامی سمجھی جاتی رہی ہے، مگر اس بار حالات مختلف ہیں۔ عوامی غصے کی جڑیں سنہ 2019 میں انڈین پارلیمان کے اس فیصلے سے جڑی ہیں جس کے تحت آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا گیا تھا۔ اسی فیصلے کے نتیجے میں لداخ کو کشمیر سے الگ کر کے ایک یونین ٹیریٹری بنایا گیا تھا، جس کے پاس کوئی اسمبلی یا مقامی قانون سازی کا اختیار نہیں۔
ابتدائی طور پر لداخ کے لوگوں نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا تھا، کیونکہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ علیحدہ حیثیت ملنے سے ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کو احساس ہوا کہ انہیں سیاسی نمائندگی، زمین کے حقوق، ماحولیات اور ثقافت کے تحفظ سے محروم کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں یہاں کے معروف ماحولیاتی کارکن اور سماجی رہنما سونم وانگچُک نے ان مطالبات کے حق میں مسلسل آواز اٹھائی۔ وہ ’’لیہہ ایپکس باڈی‘‘ اور ’’کرگل ڈیموکریٹک الائنس‘‘ کے مشترکہ پلیٹ فارم سے اس بات کے حامی ہیں کہ لداخ کو شیڈول چھ کے تحت آئینی تحفظ دیا جائے تاکہ مقامی آبادی کو اپنے وسائل، زمین اور روزگار پر مکمل حق حاصل ہو۔
ستمبر میں وانگچک اور ان کے ساتھیوں نے لیہہ کے شہید پارک میں دو ہفتوں کی بھوک ہڑتال شروع کی۔ ہڑتال کے دوران دو بزرگ شہری بھوک سے نڈھال ہو کر بے ہوش ہو گئے جس کے بعد علاقے میں غصہ پھیل گیا۔ 24 ستمبر کو مظاہرین نے مقامی انتظامی کونسل کے دفتر کی طرف مارچ کیا، جہاں جھڑپ کے دوران لداخ میں انڈین فورسز کی فائرنگ میں چار شہری ہلاک ہوئے، جن میں ایک سابق فوجی بھی شامل تھا۔

لداخ میں انڈین فورسز کی فائرنگ اور ہلاکتوں کے بعد حالات تیزی سے بگڑ گئے۔ سرکاری دفاتر پر حملے ہوئے، بی جے پی کے مقامی دفتر کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ انتظامیہ نے پورے خطے میں کرفیو نافذ کر دیا، موبائل اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی گئیں، اور سونم وانگچُک کو ’’نیشنل سکیورٹی ایکٹ‘‘ کے تحت گرفتار کر کے ریاست راجھستان کی جیل بھیج دیا گیا۔
حکومتِ ہند کے مطابق صورتحال اب قابو میں ہے۔ لیفٹنٹ گورنر کوِندر گپتا کا کہنا ہے کہ ’’لداخ میں مکمل امن ہے، عوام انتظامیہ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، تجارتی سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں۔‘‘ تاہم مقامی رہنما اس بیان کو مسترد کرتے ہیں۔
چیرین دورجے لاکرُک، جو لیہہ ایپکس باڈی کے نائب سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’’اگر سر پر بندوق رکھ کر خاموشی مسلط کر دی جائے تو اسے نارملسی نہیں کہا جا سکتا۔ ہم صرف اپنے حقوق مانگ رہے ہیں، کوئی بغاوت نہیں کر رہے۔‘‘
مقامی صحافیوں اور سماجی کارکنان کے مطابق، نوجوانوں میں بے چینی بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ تمام مطالبات آئینی اور جائز ہیں۔ مگر ان کے جواب میں گولیاں چلانا اور گرفتاریاں کرنا حکومت کی کمزوری ظاہر کرتا ہے۔‘‘
ممبئی پولیس میں نسلی واڈیا مقدمہ درج، قائداعظم کے نواسے پر جعلسازی کے سنگین الزامات
لداخ کے نوجوان خاص طور پر ماحولیات، روزگار اور ثقافت کے حوالے سے حساس ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر بیرونی سرمایہ کاری بلا روک ٹوک آ گئی تو مقامی لوگ اپنے وجود سے محروم ہو جائیں گے۔ متصف احمد نامی ماحولیاتی کارکن کے مطابق ’’تین لاکھ آبادی والے لداخ کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں شیڈول چھ نافذ کیا جائے، تاکہ زمین اور ماحول کو اندھا دھند ترقی کی دوڑ سے محفوظ رکھا جا سکے۔‘‘
وانگچک کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مختلف ردعمل دیکھنے میں آئے۔ بی جے پی کے حامیوں نے انہیں ’’غیرملکی ایجنٹ‘‘ قرار دیا جبکہ ملک کے کئی ممتاز دانشوروں نے حکومت پر تنقید کی کہ وہ ایک پُرامن شہری کو محب وطن ہونے کی سزا دے رہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سنہ 2019 میں آرٹیکل 370 ختم ہوا تو لداخ کے لوگ جشن منا رہے تھے۔ مگر اب وہی عوام کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم آرٹیکل 370 کے دور میں زیادہ محفوظ تھے۔‘‘ کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت لداخ میں کوئی بھی غیر مقامی شخص زمین نہیں خرید سکتا تھا اور نہ ہی نوکری کے لیے اہل ہوتا۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت نے لداخ کے معاملے میں سنگین غلطی کی ہے۔ ’’یہ علاقہ چین کی سرحد پر ہے۔ ایسے حساس خطے کے لوگوں کو ناراض کرنا قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔‘‘
ان کے مطابق لداخ کو یونین ٹیریٹری بنا کر ہزاروں کلومیٹر دور کے افسروں کے حوالے کرنا غیر فطری قدم ہے۔ ’’یہاں کے مقامی لوگ اپنی زمین اور ثقافت کے محافظ ہیں، ان کی رائے لیے بغیر فیصلے مسلط کرنا غلط ہے۔‘‘
لداخ کی 97 فیصد آبادی قبائلی ہے اور ان کا ماننا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ صرف شیڈول چھ کے تحت ممکن ہے۔ اس شیڈول کے تحت قبائلی علاقوں میں مقامی اسمبلیوں کو زمین، زراعت، ماحولیات اور سیاحت سے متعلق قوانین بنانے کا حق ہوتا ہے۔
انڈین وزارت داخلہ نے اکتوبر میں لداخ کے رہنماؤں سے مذاکرات کا اعلان کیا تھا، مگر تشدد اور گرفتاریوں کے بعد دونوں بڑی تنظیموں — لیہہ ایپکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس — نے مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے شرط رکھی ہے کہ مذاکرات اسی وقت ممکن ہیں جب سونم وانگچک اور دیگر گرفتار افراد کو رہا کیا جائے اور فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کی عدالتی تحقیقات ہوں۔
سونم وانگچک(sonam wangchuk ladakh protest) کی حامی کہتے ہیں کہ ’’ہم صرف انصاف چاہتے ہیں۔ ہماری تحریک شروع سے پُرامن تھی۔ ہمیں بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر ہم عدم تشدد کے اصول پر قائم ہیں۔‘‘
دوسری جانب حکومتی ذرائع کے مطابق، وانگچک کے ’’غیرملکی عناصر سے رابطوں‘‘ کی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم اب تک اس الزام کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔
لداخ میں کشیدگی کے باوجود عوامی جذبہ ٹھنڈا نہیں پڑا۔ مقامی رہنماوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم کسی سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘
ان حالات نے نئی دہلی کے لیے ایک نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے پس منظر میں لداخ کی ناراضی انڈیا کے لیے اسٹریٹیجک خطرہ بھی بن سکتی ہے۔ کیونکہ لداخ کے عوام نہ صرف اس خطے کے قدرتی محافظ ہیں بلکہ ان کی جغرافیائی اہمیت بھی بے پناہ ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر مرکزی حکومت نے مقامی لوگوں کے خدشات دور نہ کیے تو لداخ میں یہ تحریک ایک بڑے سیاسی بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ لداخ کے پہاڑ اب خاموش نہیں، وہ انصاف، شناخت اور خودمختاری کی پکار بن چکے ہیں۔
BJP office torched in Ladkh as the protesters demand for statehood.
Environmentalist Sonam Wangchuk is on a hunger strike demanding full statehood @Wangchuk66 pic.twitter.com/C8XaB5iDaO
— Брат (@1vinci6le) September 24, 2025
Comments 2