ایم او کالج کے قریب لاہور ٹرک حادثہ، 2 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق
لاہور کے علاقے ایم او کالج کے قریب ایک افسوسناک لاہور ٹرک حادثہ پیش آیا، جس نے شہر کو سوگوار کر دیا۔ عینی شاہدین کے مطابق بوتلوں سے بھرا ایک ٹرک تیز رفتاری کے باعث بے قابو ہو کر ایک رکشے پر الٹ گیا، جس میں آٹھ افراد سوار تھے۔ اس دلخراش واقعے میں دو خواتین سمیت چار افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جب کہ دو دیگر زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
حادثہ صبح کے اوقات میں پیش آیا جب ٹریفک نسبتاً کم تھی، تاہم ٹرک کی تیز رفتاری اور سڑک کے موڑ پر عدم توازن نے یہ المیہ جنم دیا۔

جاں بحق ہونے والوں کی شناخت
ریسکیو حکام کے مطابق جاں بحق افراد کی شناخت 67 سالہ شفیق، اُن کی اہلیہ 60 سالہ شبانہ، بیٹا 35 سالہ ساجد اور اُس کی اہلیہ 32 سالہ اقراء کے ناموں سے ہوئی ہے۔ خاندان کے باقی دو بچے خوش قسمتی سے محفوظ رہے جنہیں موقع پر موجود ریسکیو اہلکاروں نے بحفاظت نکال لیا۔
یہ لاہور ٹرک حادثہ ایک ہی خاندان کے لیے قیامت بن کر آیا، جس کے بعد علاقے میں غم کی لہر دوڑ گئی۔
زخمی اور ریسکیو کارروائیاں
زخمیوں کو فوری طور پر سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اُن کی حالت خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق حادثہ اتنا شدید تھا کہ رکشہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور بوتلوں کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ امدادی کارروائیوں میں کئی گھنٹے لگے۔
یہ لاہور ٹرک حادثہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شہر میں بھاری گاڑیوں کی نقل و حرکت کے لیے مناسب حفاظتی اقدامات اب بھی ناکافی ہیں۔
پولیس کی کارروائی اور ابتدائی رپورٹ
پولیس نے ٹرک ڈرائیور کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا۔ ابتدائی تفتیش کے مطابق ڈرائیور غفلت اور تیز رفتاری کے باعث گاڑی پر قابو نہ رکھ سکا۔ تھانہ قلعہ گجر سنگھ پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ڈی ایس پی ٹریفک کے مطابق لاہور ٹرک حادثہ میں انسانی جانوں کا ضیاع صرف غفلت کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے بھاری ٹرکوں کے اوقات اور راستے محدود کیے جائیں گے۔
تیز رفتاری اور شہر کی ٹریفک صورتحال
ماہرین کے مطابق لاہور ٹرک حادثہ جیسے سانحات اُس وقت تک پیش آتے رہیں گے جب تک شہروں میں بھاری گاڑیوں کی نقل و حرکت کے لیے علیحدہ نظام وضع نہیں کیا جاتا۔ لاہور میں روزانہ ہزاروں ٹرک تجارتی سامان کے لیے داخل ہوتے ہیں، جن میں زیادہ تر حفاظتی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت ٹرک کی رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد تھی، حالانکہ شہر کے اندر بھاری گاڑیوں کے لیے رفتار کی حد 40 کلومیٹر ہے۔
حکومت اور عوامی ردعمل
وزیراعلیٰ پنجاب نے لاہور ٹرک حادثہ پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فوری رپورٹ طلب کر لی۔ انہوں نے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت دی کہ جاں بحق افراد کے اہلِ خانہ کو مالی امداد فراہم کی جائے اور زخمیوں کے علاج میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔
سوشل میڈیا پر بھی شہریوں نے ٹریفک پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ ایسے واقعات معمول بنتے جا رہے ہیں اور ٹرک ڈرائیورز کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی جاتی۔
حادثے کی وجوہات
ماہرین کے مطابق لاہور ٹرک حادثہ میں مندرجہ ذیل عوامل کارفرما تھے:
- ٹرک کی تیز رفتاری
- سڑک پر حفاظتی رکاوٹوں کی کمی
- رکشہ کی گنجائش سے زیادہ سواری
- ٹریفک قوانین پر عمل درآمد میں غفلت
- ڈرائیور کی تربیت کا فقدان
ماضی کے حادثات کا جائزہ
لاہور میں اس نوعیت کے کئی حادثات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ صرف 2024 میں بھاری گاڑیوں سے منسلک 68 حادثات رپورٹ ہوئے جن میں 97 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ لاہور ٹرک حادثہ نے ایک بار پھر حکام کو یاد دلایا ہے کہ شہری ٹریفک کے نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
ممکنہ اصلاحات
ٹریفک ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت درج ذیل اقدامات کرے تو اس طرح کے سانحات کو کم کیا جا سکتا ہے:
- بھاری گاڑیوں کے لیے الگ لین یا اوقات مقرر کیے جائیں۔
- ڈرائیورز کے لائسنس کے لیے نفسیاتی و جسمانی معائنہ لازمی قرار دیا جائے۔
- سڑکوں پر رفتار کی حد کی خلاف ورزی پر ڈیجیٹل جرمانے عائد کیے جائیں۔
- شہریوں کو ٹریفک آگاہی مہمات میں شامل کیا جائے تاکہ احتیاطی رویے فروغ پائیں۔
انسانی پہلو
یہ لاہور ٹرک حادثہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ ایک خاندان کی مکمل تباہی ہے۔ 67 سالہ شفیق اور اُن کی اہلیہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ کسی خاندانی تقریب سے واپس آ رہے تھے جب یہ واقعہ پیش آیا۔ اہلِ علاقہ کے مطابق، یہ خاندان محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا تھا اور ان کی موت نے پورے محلے کو غمزدہ کر دیا۔
بنؤ حملہ: ڈی پی او شمالی وزیرستان کی گاڑی پر فائرنگ، 5 اہلکار زخمی
لاہور ٹرک حادثہ اس امر کی یاد دہانی ہے کہ ٹریفک قوانین پر عمل نہ کرنا کتنی بڑی قیمت کا سبب بن سکتا ہے۔ تیز رفتاری، لاپرواہی اور کمزور نگرانی نے ایک اور خاندان کی زندگی چھین لی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس واقعے کو محض ایک رپورٹ تک محدود نہ رکھے بلکہ عملی اقدامات اٹھائے تاکہ آئندہ کسی اور گھر میں ایسا سانحہ نہ ہو۔









