چینی بحران شدت اختیار کر گیا حکومت کی پالیسی ناکام
لاہور: ملک میں چینی کی قیمت اور فراہمی سے متعلق بحران دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ شوگر ڈیلرز اور شوگر ملز مالکان کے درمیان جاری تنازع کے باعث بازاروں میں چینی کی ترسیل بری طرح متاثر ہوئی ہے، جس سے نہ صرف شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ حکومتی رٹ بھی چیلنج ہو رہی ہے۔
شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما سہیل ملک نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی مارکیٹ میں چینی سرکاری نرخ 165 روپے فی کلو پر دستیاب نہیں ہو سکی، جس کے نتیجے میں چینی کی فراہمی مسلسل معطل ہے۔ ان کے مطابق جب تک ملز مالکان حکومتی نرخ پر چینی فراہم نہیں کرتے، تب تک ڈیلرز سپلائی بحال نہیں کر سکتے۔
سہیل ملک نے سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ شوگر ملز مالکان نے وفاقی وزارت سے ملی بھگت کر کے چینی کی بڑی مقدار بیرون ملک برآمد کر دی، جس سے اربوں روپے کا ناجائز منافع کمایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ملک میں بحران پیدا ہوتا ہے تو صرف شوگر ڈیلرز کو قربانی کا بکرا بنایا جاتا ہے، حالانکہ اصل ذمے دار ملز مالکان ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بیشتر شوگر ڈیلرز روپوش ہیں کیونکہ ان پر حکومتی دباؤ بڑھ رہا ہے اور انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب شوگر ملز مالکان ذرائع ابلاغ کے سامنے آنے سے گریز کر رہے ہیں اور کھل کر مؤقف نہیں دے رہے۔
شوگر ملز ذرائع کے مطابق چینی کی ذخیرہ اندوزی یا قلت نہیں ہے، بلکہ مسئلہ قیمتوں کے تعین کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی مقرر کردہ قیمتیں پیداواری لاگت سے کم ہیں، جس کی وجہ سے انہیں نقصان ہو رہا ہے، اور یہی بنیادی وجہ ہے کہ وہ چینی فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو اور ریٹیل قیمت 173 روپے مقرر کی ہے۔ تاہم ان سرکاری قیمتوں پر چینی عوام کو دستیاب نہیں۔ لاہور، اسلام آباد، پشاور اور اب کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں چینی نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ جن علاقوں میں چینی دستیاب ہے، وہاں اس کی قیمت 190 سے 200 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے۔
بعض شہروں میں چینی کی فروخت صرف مخصوص دکانوں یا شناختی کارڈ کی شرط کے ساتھ کی جا رہی ہے، جبکہ بعض جگہوں پر راشن سسٹم جیسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ شہریوں کو چینی کے لیے گھنٹوں قطاروں میں لگنا پڑتا ہے، جو روزمرہ زندگی کو مزید مشکل بنا رہا ہے۔
معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ بحران طویل ہو سکتا ہے۔ چینی ایک بنیادی ضرورت کی چیز ہے اور اس کی عدم دستیابی یا مہنگائی نہ صرف مہنگائی کی مجموعی شرح کو بڑھائے گی بلکہ عوامی بے چینی اور سیاسی دباؤ میں بھی اضافہ کرے گی۔
عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی کے معاملے میں شفافیت لائی جائے، مصنوعی قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور چینی کی قیمت کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ بصورت دیگر عوامی غصہ بڑھنے اور سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں ظاہر ہونے کا خدشہ ہے
Comments 2