پاکستان فوج کا افغان طالبان کو منہ توڑ جواب — متعدد ٹینک تباہ، اہم چوکیوں پر قبضہ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ پاکستانی افواج کی جانب سے افغان طالبان فورسز کے خلاف مؤثر اور بھرپور جوابی کارروائی جاری ہے۔ سرکاری اور سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، پاک فوج نے نہ صرف دشمن کی متعدد سرحدی پوسٹس کو تباہ کیا بلکہ اہم علاقوں میں عسکری برتری بھی حاصل کر لی ہے۔
تفصیلات کے مطابق، کرم ایجنسی کے مقابل افغان حدود میں واقع ایک بلند پہاڑی چوٹی پر افغان طالبان کے زیرِ استعمال ٹینک پوزیشن کو پاک فوج نے کامیابی سے نشانہ بنایا۔ اس کارروائی میں طالبان کے متعدد ٹینک تباہ کر دیے گئے۔
اہم پیشرفت: ژوب سیکٹر میں پاکستانی فوج کا قبضہ، قومی پرچم لہرا دیا گیا
بلوچستان کے ژوب سیکٹر میں بھی پاکستان نے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے افغان طالبان کی ایک اہم پوسٹ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ کارروائی کے فوراً بعد پاکستانی پرچم پوسٹ پر لہرا دیا گیا۔
پوسٹ پر موجود افغان طالبان کی "ہم وی” بکتر بند گاڑی کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ یہ بکتر بند گاڑیاں طالبان کو ماضی میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد ملی تھیں اور ان کا استعمال افغانستان میں سیکیورٹی کے لیے کیا جا رہا تھا۔
جنوبی وزیرستان: انگور اڈا کے سامنے طالبان پوسٹ مکمل تباہ
پاکستانی فوج کی جوابی کارروائی جنوبی وزیرستان کے علاقے انگور اڈا تک بھی پہنچی، جہاں افغان طالبان کی ایک اور سرحدی پوسٹ مکمل طور پر تباہ کر دی گئی۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، یہ پوسٹ ان علاقوں میں شامل تھی جہاں سے پاکستان پر مسلسل حملے کیے جا رہے تھے۔
فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ کارروائی مکمل انٹیلیجنس بیسڈ تھی، جس میں دہشت گرد عناصر اور ان کے عسکری ٹھکانوں کو براہ راست نشانہ بنایا گیا۔ ان کے مطابق، اس کا مقصد دہشت گردی کی منتقلی کو روکنا اور پاکستان کی سرحدی خودمختاری کا تحفظ تھا۔
فوجی حکام: کارروائی دفاعی نوعیت کی، پاکستان اپنی خودمختاری کا مکمل تحفظ کرے گا
آئی ایس پی آر کی جانب سے تاحال اس کارروائی پر باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم دفاعی ماہرین اور سیکیورٹی ذرائع کا مؤقف واضح ہے کہ یہ تمام کارروائیاں دفاعی نوعیت کی تھیں۔ پاکستان نے اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے ایسے تمام ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں سے براہ راست فائرنگ یا دراندازی کی جا رہی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے، مگر اگر ملکی خودمختاری کو چیلنج کیا گیا تو اس کا سخت اور مؤثر جواب دیا جائے گا۔ سیکیورٹی ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ کارروائی کے دوران جدید گائیڈڈ ہتھیاروں اور فضائی معاونت کا استعمال کیا گیا، جس نے ہدف کو درستگی سے نشانہ بنایا۔
افغانستان کی خاموشی اور بین الاقوامی خاموش مشاہدہ
افغان طالبان کی عبوری حکومت کی جانب سے پاکستانی کارروائی پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ بعض غیر سرکاری افغان ذرائع ان حملوں کو "سرحدی خلاف ورزی” قرار دے رہے ہیں، تاہم افغان وزارتِ خارجہ یا وزارتِ دفاع کی سطح پر کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اس معاملے پر فی الحال خاموشی ہے۔ تاہم، دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا تو اقوام متحدہ، چین، اور او آئی سی جیسے ادارے ممکنہ طور پر ثالثی کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تجزیہ: پاکستان کا پیغام واضح، سرحدی دراندازی برداشت نہیں کی جائے گی
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حالیہ کارروائی پاکستان کی عسکری صلاحیت اور دفاعی تیاریوں کا واضح اظہار ہے۔ خاص طور پر ژوب سیکٹر میں طالبان پوسٹ پر قبضہ اور قومی پرچم لہرانا صرف ایک فوجی کامیابی نہیں بلکہ ایک علامتی اور اسٹریٹیجک پیغام بھی ہے — کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ میں کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اور سیکیورٹی اداروں کے مطابق ان حملوں کے تانے بانے افغانستان میں موجود شدت پسند گروپوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
علاقائی اثرات: ممکنہ انسانی بحران اور مہاجرین کی نئی لہر کا خدشہ
تازہ ترین عسکری پیش رفت سے علاقائی سطح پر انسانی بحران کا خطرہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب رہنے والے شہریوں میں خوف کی فضا ہے، اور افغانستان کی جانب سے بعض دیہاتوں سے نقل مکانی کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔
پاکستان پہلے ہی لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، اور کسی بھی نئی مہاجر لہر سے مقامی وسائل پر مزید دباؤ پڑنے کا اندیشہ ہے۔
آگے کیا ہوگا؟ پاکستان کا سفارتی اور عسکری راستہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ اب پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ عسکری کامیابی کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی متحرک ہو۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی، بارڈر مینجمنٹ، اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے لیے بات چیت کا دوبارہ آغاز ناگزیر ہو چکا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اقوام متحدہ یا علاقائی تنظیموں کے پلیٹ فارم پر افغان حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرے، خاص طور پر دہشت گردی کے معاملے پر۔
پاکستان کا مؤقف دو ٹوک — امن کے خواہاں، مگر جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں
حالیہ واقعات نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں ضرور ہے، لیکن ملکی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ افغان سرحد سے دراندازی، دہشت گردوں کی پشت پناہی، یا کسی بھی قسم کی بلااشتعال فائرنگ کا مؤثر جواب دیا جائے گا — یہی پاکستان کا مؤقف ہے اور یہی پیغام حالیہ کارروائیوں سے افغان حکومت اور بین الاقوامی برادری کو دیا جا چکا ہے۔

