پاکستان اور آئی ایم ایف مذاکرات: ایک ارب ڈالر کی قسط کا فیصلہ کن مرحلہ
پاکستان کی معیشت ایک نئے اہم موڑ پر کھڑی ہے، جہاں عالمی مالیاتی ادارہ (IMF) کے ساتھ ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کے لیے دوسرے اقتصادی جائزے پر مذاکرات کل سے شروع ہونے جا رہے ہیں۔ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ملک معاشی دباؤ، مہنگائی اور مالیاتی عدم توازن جیسے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔
آئی ایم ایف مشن کا پاکستان آمد
ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کا وفد جمعرات کو پاکستان پہنچے گا اور تقریباً دو ہفتے قیام کرے گا۔ اس دوران پاکستان کی معاشی کارکردگی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا، خاص طور پر جنوری تا جون 2025 کے درمیان حاصل شدہ مالیاتی ڈیٹا پر توجہ دی جائے گی۔
اس مشن کے دوران پہلے تکنیکی مذاکرات ہوں گے، جس میں وزارت خزانہ اور دیگر مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے حکام کو مطلوبہ معاشی اعداد و شمار، اصلاحات کی پیش رفت اور اہداف کی تکمیل سے متعلق بریفنگ دیں گے۔ اس کے بعد پالیسی سطح کے مذاکرات کا آغاز ہو گا جس میں اعلیٰ حکام، بشمول وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، شرکت کریں گے۔
پاکستان کی تیاری اور اہداف کی تکمیل
وزارت خزانہ کے حکام کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے بیشتر ساختیاتی اور مالیاتی اہداف پورے کر لیے ہیں۔ ان میں ٹیکس وصولیوں میں بہتری، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، سبسڈی میں کمی اور مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھنا شامل ہے۔
وزارت کے مطابق:
"ہمیں توقع ہے کہ پہلے تکنیکی مذاکرات مثبت رہیں گے اور پالیسی سطح پر بھی بات چیت نتیجہ خیز ثابت ہو گی، جس کے بعد بورڈ کی منظوری سے ایک ارب ڈالر کی قسط جاری ہو جائے گی۔”
اگر مذاکرات کامیاب رہے تو یہ رقم رواں مالی سال (2025-26) کے مالیاتی توازن کو مستحکم کرنے میں مدد دے گی۔
ماضی کی کارکردگی: دو قسطیں پہلے ہی موصول
یہ مذاکرات ستمبر 2024 میں طے پانے والے نئے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام (SBA) کے تحت ہو رہے ہیں، جس کے تحت پاکستان کو مجموعی طور پر 3 ارب ڈالر فراہم کیے جانے ہیں۔ اب تک پاکستان دو قسطوں میں 2.1 ارب ڈالر وصول کر چکا ہے۔ تیسری قسط کی راہ ہموار کرنے کے لیے یہ دوسرا اقتصادی جائزہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور کلائمیٹ فنانسنگ ایجنڈا بھی شامل
آئی ایم ایف کا یہ جائزہ صرف مالیاتی پرفارمنس تک محدود نہیں ہوگا بلکہ اس میں ماحولیاتی پالیسیوں اور کلائمیٹ فنانسنگ کے معاملات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق، وفد پاکستان کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے اقدامات کا بھی جائزہ لے گا، خاص طور پر ان منصوبوں کو جو آر ایس ایف (Resilience and Sustainability Facility) پروگرام کے تحت شروع کیے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے اس پروگرام کے تحت پاکستان کے لیے 1.4 ارب ڈالر کی منظوری دے رکھی ہے، جس میں سے فنڈز کی فراہمی مشروط ہے پاکستان کی مجموعی معاشی کارکردگی سے۔
وزیراعظم کی درخواست: سیلاب کے اثرات کو بھی مدنظر رکھا جائے
اس اہم موقع پر وزیراعظم نے آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت پر 2022 اور 2024 کے سیلابوں کے اثرات کو بھی اقتصادی جائزے کا حصہ بنایا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ قدرتی آفات نے پاکستان کی زرعی پیداوار، ایکسپورٹ، اور غریب طبقے کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کا اثر مجموعی معیشت پر بھی نمایاں ہوا ہے۔
یہ مطالبہ خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں اہم ہے، کیونکہ پاکستان ماحولیاتی خطرات سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
معاشی ماہرین کی رائے: مذاکرات کا نتیجہ اہم موڑ
ملکی اور بین الاقوامی معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات پاکستان کے لیے مالی استحکام کی راہ میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اگر ایک ارب ڈالر کی قسط مل جاتی ہے تو نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا بلکہ عالمی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال ہو سکتا ہے۔
ایک معروف معیشت دان کے مطابق:
"IMF کی حمایت کا مطلب ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسیاں درست سمت میں ہیں۔ یہ نہ صرف عالمی سطح پر مثبت اشارہ ہوگا بلکہ دیگر مالیاتی اداروں سے بھی امداد حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔”
عوامی سطح پر امید اور سوالات
جہاں حکومتی سطح پر اعتماد کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہیں عوامی سطح پر یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ آیا اس قسط سے مہنگائی میں کمی آئے گی یا نہیں۔ عام شہری یہ توقع رکھتے ہیں کہ بین الاقوامی امداد کا فائدہ صرف اعداد و شمار تک محدود نہ رہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بھی بہتری لائے۔
فیصلہ کن لمحہ
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان یہ مذاکرات ایک فیصلہ کن لمحہ ہیں۔ جہاں ایک طرف پاکستان عالمی برادری کو معاشی اصلاحات کے تسلسل کا پیغام دینا چاہتا ہے، وہیں دوسری طرف مالیاتی دباؤ کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔
آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ کیا پاکستان اپنی اقتصادی حکمت عملی کو عالمی مالیاتی ادارے کے معیار پر پورا اتارنے میں کامیاب ہوتا ہے یا مزید اصلاحات کی ضرورت باقی ہے۔

Comments 1