جنوبی خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس کے 2 نئے کیسز رپورٹ
جنوبی خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس کے 2 نئے کیسز: ایک قومی چیلنج
پاکستان میں ایک بار پھر پولیو وائرس کی واپسی نے عوامی صحت کے اداروں، حکومت، والدین اور بین الاقوامی شراکت داروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق، جنوبی خیبر پختونخوا کے دو اضلاع، ٹانک اور شمالی وزیرستان میں پولیو کے دو نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ یہ کیسز 2025 میں پاکستان میں پولیو کے تصدیق شدہ کیسز کی مجموعی تعداد کو 23 تک لے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف تشویشناک ہیں بلکہ ایک عرصے سے جاری انسدادِ پولیو مہمات کے لیے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر (NEOC) کی رپورٹ
نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر (NEOC) نے ان کیسز کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں متاثرہ بچے ان علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ماضی میں بھی پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ ان علاقوں میں سیکیورٹی، تعلیم، اور صحت عامہ کی سہولیات کی کمی پولیو ویکسین کی رسائی میں رکاوٹ بنتی رہی ہے۔
ٹانک اور شمالی وزیرستان جیسے علاقوں میں پولیو کے کیسز کا سامنے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وائرس اب بھی ان علاقوں میں موجود ہے جہاں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مسلسل چیلنجز کا سامنا ہے۔
ملک بھر میں خطرے کی گھنٹی
ان کیسز کی روشنی میں، سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پولیو وائرس اب صرف مخصوص علاقوں تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ کئی نئے علاقوں میں بھی اپنے آثار دکھا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کے 75 سے زائد اضلاع میں ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا اشارہ ہے کہ وائرس خاموشی سے پھیل رہا ہے، اور کسی بھی وقت یہ بڑے پیمانے پر بچوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
وزیراعظم کی ہنگامی مداخلت
پولیو کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے جو 27 اگست کو وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہوگا۔ اس اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکرٹریز کو ذاتی طور پر شرکت کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس اعلیٰ سطحی اجلاس کا مقصد ملک بھر میں انسدادِ پولیو کی مہمات کا جائزہ لینا، مسائل کی نشاندہی کرنا اور ایک مؤثر حکمت عملی مرتب کرنا ہے۔
یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کو کتنی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ تمام صوبے اور متعلقہ ادارے ایک پلیٹ فارم پر آ کر مشترکہ کوششیں کریں گے تاکہ پولیو کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے۔
پولیو وائرس کی خطرناک قسم کی موجودگی
اس سے قبل ملک کے چار علاقوں — دیامر، جنوبی وزیرستان، لاہور اور راولپنڈی — میں پولیو وائرس کی سب سے خطرناک قسم کے پائے جانے کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ یہ قسم وہ ہے جو تیز رفتاری سے پھیلتی ہے اور زیادہ نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ان شہروں میں وائرس کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب یہ صرف دیہی یا پسماندہ علاقوں کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ شہری علاقوں میں بھی خطرہ بڑھ رہا ہے۔
قومی انسدادِ پولیو مہم: 1 تا 7 ستمبر 2025
حکومتِ پاکستان نے موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے انسداد پولیو مہم کو مزید مؤثر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر کے مطابق، یکم تا 7 ستمبر 2025 ملک بھر میں ایک قومی انسداد پولیو مہم چلائی جائے گی۔ اس دوران 5 سال سے کم عمر کے 2 کروڑ 80 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
یہ مہم چاروں صوبوں اور تمام ریجنز کے 99 اضلاع میں بیک وقت منعقد کی جائے گی۔ اس مہم کی کامیابی کا انحصار صرف حکومتی اقدامات پر نہیں بلکہ والدین، کمیونٹی رہنماؤں، مذہبی شخصیات اور میڈیا کے تعاون پر بھی ہے۔
چیلنجز اور رکاوٹیں
پولیو کے مکمل خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ والدین میں پائے جانے والے شکوک و شبہات، جھوٹی افواہیں، مذہبی عقائد کی غلط تشریحات، اور سیکیورٹی خدشات ہیں۔ خاص طور پر جنوبی خیبر پختونخوا، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ویکسین ٹیموں پر حملوں کے واقعات، مقامی مزاحمت اور غیر یقینی صورتحال پولیو مہمات کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔
مزید برآں، ماحولیاتی آلودگی، ناقص نکاسی آب، اور غربت بھی وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی نمونوں میں وائرس کی موجودگی ان بنیادی سہولیات کی کمزوری کی نشاندہی کرتی ہے جنہیں بہتر بنانا ناگزیر ہے۔
آگے کا راستہ: اجتماعی قومی ذمہ داری
پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آج بھی پولیو موجود ہے۔ یہ ایک ایسا داغ ہے جسے ختم کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ والدین کو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے ضرور پلانے چاہئیں۔ ہر فرد کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ پولیو کا خاتمہ صرف حکومت کا فریضہ نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے۔
میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو پولیو کے بارے میں آگاہی دے، اور ان افواہوں کا قلع قمع کرے جو ویکسین کے خلاف پھیلائی جاتی ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ عوام کو تعلیم دیں کہ اسلام میں صحت کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔
جنوبی خیبر پختونخوا میں پولیو کے نئے کیسز کا سامنا ایک سنگین مسئلہ ہے جو صرف مقامی نہیں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ 2025 میں بھی ہم ایک ایسے مرض سے لڑ رہے ہیں جسے دنیا کے بیشتر ممالک دہائیوں پہلے ختم کر چکے ہیں۔ لیکن ابھی بھی وقت ہے — اگر ہم سب مل کر متحد ہو جائیں، تو پاکستان کو پولیو فری بنانے کا خواب ضرور پورا ہو سکتا ہے۔
