پاکستان ریلوے کی قیمتی اراضی پر قبضے کا معاملہ ایک بار پھر منظرِ عام پر آگیا ہے
آڈٹ رپورٹ برائے مالی سال 2024-25ء میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان ریلوے کی زمین پر نجی و سرکاری اداروں کا قبضہ اب بھی جاری ہے اور اربوں روپے مالیت کی اراضی تجاوزات کی نذر ہوچکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ریلوے کی قیمتی زمین، جس کی مالیت 5 ارب 63 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد بتائی جارہی ہے، مختلف نجی و سرکاری اداروں کے قبضے میں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 8 ہزار 372 مرلے سے زائد اراضی پر قبضہ کیا گیا ہے، اور یہ تجاوزات ایک دن یا چند ماہ کا نتیجہ نہیں بلکہ 1980ء سے 2024ء تک کے عرصے میں قائم کی گئیں۔ اس طویل عرصے میں ریلوے کی اراضی پر قبضوں کی نشاندہی کئی بار کی گئی لیکن مؤثر اقدامات نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ بڑھتا چلا گیا۔

مسلسل رپورٹوں میں نشاندہی
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ معاملہ نیا نہیں بلکہ مسلسل تین مختلف آڈٹ رپورٹوں میں اس کا ذکر سامنے آیا۔ سال 2019-20، 2021-22 اور 2023-24ء کی آڈٹ رپورٹوں میں بھی پاکستان ریلوے کی زمین پر نجی و سرکاری اداروں کا قبضہ موضوع بحث رہا۔ تاہم متعلقہ حکام کی جانب سے سفارشات کے باوجود عملی طور پر کوئی بڑا اقدام نہیں اٹھایا گیا جس کے باعث زمین پر قبضے کی صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔

اربوں کی زمین پر قبضے کی تفصیل
رپورٹ کے مطابق یہ زمین پاکستان ریلوے کی ملکیت ہے جس کا مقصد قومی مفاد میں استعمال اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا تھا، لیکن کئی دہائیوں کے دوران اسے غیر قانونی طور پر ہتھیا لیا گیا۔ قبضہ کرنے والوں میں بعض نجی کاروباری افراد، مقامی بااثر شخصیات کے ساتھ ساتھ سرکاری ادارے بھی شامل ہیں۔ زمین پر قائم تجاوزات نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنی ہیں بلکہ ریلوے کے ترقیاتی منصوبوں میں بھی رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔

حکام کی تشویش
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ہی مسئلہ بار بار آڈٹ رپورٹس میں سامنے آنا ادارہ جاتی کمزوریوں اور غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان ریلوے کی زمین پر قبضہ نہ صرف قومی خزانے کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ ادارے کی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ بار بار کی نشاندہی کے باوجود قبضوں کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ذمہ داران نے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
سفارشات اور ریکوری کے اقدامات
آڈٹ حکام نے اپنی رپورٹ میں زور دیا ہے کہ فوری طور پر زمین واگزار کرانے کے لیے جامع منصوبہ بنایا جائے۔ ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریلوے کی اراضی پر قبضے کے مسئلے کو صرف کاغذی کارروائیوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ عملی طور پر بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جائیں۔
ماضی کے اقدامات اور ناکامیاں
اس سے قبل بھی پاکستان ریلوے نے کئی بار اپنی زمینوں پر قبضے ختم کرانے کے دعوے کیے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر دعوے زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔ بعض علاقوں میں معمولی کارروائی ضرور ہوئی مگر بڑے پیمانے پر زمین واگزار کرانے میں ناکامی ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اربوں روپے مالیت کی زمین پر ناجائز قبضے قائم ہیں۔
عوامی اور ماہرین کی رائے
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ریلوے جیسے قومی ادارے کی زمین پر ناجائز قبضے دراصل قانون کی کمزوری اور عملدرآمد نہ ہونے کا نتیجہ ہیں۔ عوامی حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ قومی اثاثے بااثر طبقے کے قبضے میں جا رہے ہیں اور حکومت عملی اقدامات کرنے میں ناکام ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ یہ قیمتی زمین فوری طور پر واگزار کرائی جائے اور اصل مقصد کے تحت استعمال ہو تاکہ قومی ادارے کو فائدہ ہو سکے۔
پاکستان ریلوے کی زمین پر نجی و سرکاری اداروں کا قبضہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو دہائیوں سے چل رہا ہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اگر بروقت اور سخت اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف ریلوے بلکہ قومی معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔ آڈٹ رپورٹ کی سفارشات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وقت کم ہے اور فیصلہ کن کارروائی کے بغیر یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔
READ MORE FAQs
پاکستان ریلوے کی زمین پر کتنی اراضی پر قبضہ ہے؟
آڈٹ رپورٹ کے مطابق 8 ہزار 372 مرلے سے زائد زمین پر نجی و سرکاری اداروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
اس زمین کی مالیت کتنی ہے؟
ریلوے اراضی کی مالیت تقریباً 5 ارب 63 کروڑ 40 لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔
یہ قبضے کب سے جاری ہیں؟
رپورٹ کے مطابق تجاوزات 1980ء سے 2024ء کے دوران قائم کی گئیں اور آج تک موجود ہیں۔