پاکستانی برآمدات میں پائیدار ڈھانچہ نہ بن سکا، ٹیکسٹائل انحصار اور توانائی بحران رکاوٹ
پاکستانی برآمدات کا سفر گزشتہ دو دہائیوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں مختصر کامیابیاں ضرور ملیں مگر طویل مدتی پائیداری اور تنوع کا فقدان آج بھی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستانی برآمدات کی کارکردگی زیادہ تر ٹیکسٹائل سیکٹر پر انحصار کرتی رہی ہے، جس نے ملکی معیشت کو محدود کر دیا ہے۔
ٹیکسٹائل پر انحصار: ایک پرانا مسئلہ
پاکستانی برآمدات (Pakistani exports) کا تقریباً نصف سے زیادہ حصہ ٹیکسٹائل سے جڑا ہوا ہے۔ بیڈشیٹس، تولیے، ریڈی میڈ گارمنٹس اور کاٹن یارن جیسے شعبے آج بھی بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ تیار شدہ مصنوعات کی مانگ میں اضافہ ہوا، مگر متنوع برآمدات کی طرف پیش رفت سست رہی۔ یہ صورتحال پاکستانی برآمدات کے لیے خطرناک ہے کیونکہ عالمی سطح پر صرف چند مارکیٹوں (امریکا اور یورپی یونین) پر انحصار برقرار ہے۔
2000 کی دہائی: ترقی اور پھر بحران
سن 2000 کے وسط میں برآمدات میں اچانک تیزی آئی۔ عالمی مارکیٹ کی بہتری اور مقامی اصلاحات نے ایک مثبت رجحان پیدا کیا۔ تاہم 2008-09 کا عالمی مالیاتی بحران سب کچھ پلٹ گیا۔ اس دوران پاکستانی برآمدات کو شدید دھچکا لگا اور کئی آرڈرز منسوخ ہوئے۔ یہ بحران یہ واضح کر گیا کہ صرف ٹیکسٹائل پر انحصار کسی بھی بحران میں پاکستانی برآمدات کو غیر محفوظ بنا دیتا ہے۔
2010 سے 2019: توانائی بحران اور مسابقت کی کمی
پاکستانی برآمدات نے 2010 کے بعد کچھ بحالی کا تجربہ کیا، مگر یہ زیادہ دیر برقرار نہ رہ سکی۔ توانائی بحران، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور کرنسی کے مصنوعی استحکام نے مقامی انڈسٹری کو غیر مسابقتی بنا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی منڈی میں برآمدات پیچھے رہ گئیں۔
کورونا وبا کے دوران مختصر بہتری
وبا کے دوران پاکستانی برآمدات میں وقتی کمی دیکھنے میں آئی لیکن گھریلو مصنوعات جیسے بیڈ لینن اور تولیوں کی مانگ بڑھنے سے کچھ عرصے کے لیے تیزی آئی۔ تاہم جیسے ہی دنیا معمول پر آئی، توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور لاجسٹکس لاگت نے ایک بار پھر برآمدات کی رفتار کو کم کر دیا۔
پالیسی میں عدم تسلسل: سب سے بڑی رکاوٹ
ماہرین کے مطابق برآمدات میں سب سے بڑی رکاوٹ پالیسی کا عدم تسلسل ہے۔ ہر حکومت نے مختلف اسٹریٹجیز متعارف کرائیں مگر طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی برآمدات کبھی بھی ایک مستحکم ڈھانچہ حاصل نہ کر سکیں۔
مستقبل کے امکانات اور تجاویز
تنوع کی ضرورت: پاکستانی برآمدات کو ٹیکسٹائل کے ساتھ ساتھ آئی ٹی، فارماسیوٹیکل، ایگرو بیسڈ مصنوعات اور سروسز کی طرف بڑھنا ہوگا۔
انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری: صنعتی زونز میں توانائی، لاجسٹکس اور ریگولیٹری سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا۔
مالیاتی سہولتیں: ایکسپورٹرز کے لیے ایسے فنانسنگ پیکجز ترتیب دینا ضروری ہیں جو قبل از اور بعد از ترسیل دونوں مراحل کو سپورٹ کریں۔
عالمی منڈیوں تک رسائی: نئی مارکیٹوں (افریقہ، لاطینی امریکا اور مشرقی ایشیا) میں پاکستانی برآمدات کو متعارف کرانے کی حکمت عملی اپنائی جائے۔
آئی ٹی اور سروسز کا فروغ: آئی ٹی سیکٹر برآمدات کے لیے امید کی نئی کرن ہے جو توانائی بحران سے کم متاثر ہوتا ہے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی عالمی مانگ رکھتا ہے۔
گزشتہ بیس سال میں پاکستان کی برآمدات نے کئی نشیب و فراز دیکھے، مگر ایک بات واضح ہے: اگر فوری طور پر تنوع اور پالیسی تسلسل پر توجہ نہ دی گئی تو مستقبل میں بھی یہی مسائل پاکستانی برآمدات کی راہ میں رکاوٹ بنے رہیں گے۔ تاہم اگر درست اصلاحات کی جائیں تو اگلا دہا پاکستان کی برآمدات کے لیے کامیابی کی نئی داستان رقم کر سکتا ہے۔
سیمنٹ کی برآمدات میں 51 فیصد سالانہ اضافہ، پاکستانی معیشت کو سہارا
