ملائیشین وزیراعظم کا تاریخی بیان
کوالا لمپور میں ہونے والی مشترکہ نیوز کانفرنس میں ملائیشین وزیراعظم محمد انور ابراہیم نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ دیرپا تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ "دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے پاکستان سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا”۔
یہ بیان جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی نئی راہیں کھولنے کے مترادف ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی سطح پر ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان ملائیشیا تعلقات: وقت کے ساتھ مضبوط ہوتے ہوئے
انور ابراہیم نے کہا کہ پاکستان ملائیشیا تعلقات وقت کے ساتھ مزید بہتر ہوئے ہیں اور دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کے مفادات کا احترام کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات نہ صرف اقتصادی بلکہ ثقافتی و تعلیمی میدان میں بھی وسعت اختیار کر چکے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ خطے میں امن و خوشحالی کے لیے پاکستان اور ملائیشیا کا کردار کلیدی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا خیرسگالی پیغام
وزیراعظم شہباز شریف نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وہ ملائیشیا کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان ملائیشیا تعلقات کو برادرانہ اور باہمی اعتماد پر مبنی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ "ملائیشیا نے ہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی ہے، اور ہم بھی باہمی ترقی کے ہر موقع کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں۔”
کتاب "اسکرپٹ” بطور دوستی کا پل
وزیراعظم شہباز شریف نے ملائیشین ہم منصب انور ابراہیم کی کتاب “اسکرپٹ” کو سراہا اور کہا کہ یہ کتاب اسلام آباد اور کوالالمپور کے درمیان فکری و ثقافتی پل کا کردار ادا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ "علمی و فکری تبادلے سے ہی قومیں ترقی کرتی ہیں، اور پاکستان ملائیشیا تعلقات اسی بنیاد پر مزید گہرے ہوں گے۔”
حلال گوشت کی تجارت میں نیا باب
وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا کہ پاکستان سے 20 کروڑ ڈالر مالیت کے حلال گوشت کی برآمد کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حلال گوشت کی تجارت کو مزید وسعت دینے سے دونوں ممالک کو معاشی فائدہ ہوگا۔
یہ اقدام پاکستان ملائیشیا تعلقات میں تجارتی تعاون کی نئی راہ ہموار کرے گا۔
مشترکہ منصوبوں کی اہمیت
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان ملائیشیا تعلقات کو عملی شکل دینے کے لیے دونوں ممالک کو مشترکہ منصوبوں پر کام کرنا چاہیے۔ انور ابراہیم کے تجربے سے سیکھنے کے مواقع کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ہم ان کے وژن سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ممالک ترقی کے سفر میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہیں۔”
علاقائی استحکام میں تعاون
انور ابراہیم نے کہا کہ خطے میں پاک بھارت امن انتہائی اہم ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار ترقی اسی وقت ممکن ہے جب خطے کے ممالک امن و استحکام کے لیے متحد ہوں۔
انہوں نے واضح کیا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاکستان ملائیشیا تعلقات عالمی امن کی کوششوں میں مددگار ثابت ہوں گے۔
دہشتگردی کے خلاف تعاون
ملائیشین وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ دہشتگردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے خلاف تمام ممالک کو متحد ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ "پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور ہم اس جنگ میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔”
یہ بیان اس امر کی علامت ہے کہ پاکستان ملائیشیا تعلقات صرف معاشی نہیں بلکہ عالمی امن کے ایجنڈے سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
سرکاری استقبالیہ اور اعزاز
قبل ازیں، وزیراعظم شہباز شریف جب ملائیشیا کے وزیراعظم آفس پہنچے تو انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے اور اعلیٰ سطحی حکام نے ملاقات میں شرکت کی۔
یہ سفارتی پروٹوکول دونوں ممالک کے تعلقات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

عالمی منظرنامے میں پاکستان ملائیشیا تعلقات
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات نہ صرف دو طرفہ تعاون بلکہ او آئی سی (Organization of Islamic Cooperation) جیسے بین الاقوامی فورمز پر بھی مشترکہ مفادات کی بنیاد پر استوار ہیں۔
انور ابراہیم نے کہا کہ "اسلامی دنیا کے مسائل کے حل میں پاکستان کا کردار نمایاں ہے، اور ملائیشیا اس کردار کو تسلیم کرتا ہے۔”
اقتصادی میدان میں تعاون
پاکستان اور ملائیشیا نے توانائی، تعلیم، سیاحت، اور ڈیجیٹل اکنامی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔
ان منصوبوں سے دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع ہے، جو پاکستان ملائیشیا تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائے گا۔
دوستی اور برادری کا پیغام
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ملائیشیا کے عوام کے درمیان محبت، اعتماد اور بھائی چارے کا رشتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ تعلق کسی وقتی مفاد پر مبنی نہیں بلکہ اسلامی اخوت، مشترکہ اقدار اور تاریخی رشتوں سے جڑا ہے۔”
وزیراعظم شہباز شریف کا ملائیشیا کا دورہ 2025: پاکستان اور ملائیشیا کے تعلقات میں نئی روح
دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگلے پانچ برسوں میں دونوں ممالک تجارتی حجم کو دوگنا کرنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی تیار کریں گے۔
اس سلسلے میں نئی تجارتی پالیسی، سرمایہ کاری کے منصوبے اور سفارتی وفود کے تبادلے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
Comments 1