وزیراعظم شہباز شریف کا کابل کو واضح پیغام، گیند اب کابل کے کورٹ میں ہے، اگر سنجیدہ ہیں تو بات آگے بڑھائیں،پاک افغان سیز فائر طالبان حکومت کی درخواست پرکیا۔
اسلام آباد : — وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کا مؤقف دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ “افغان حکومت کی درخواست پر ہم نے 48 گھنٹے کے لیے پاک افغان سیز فائر کیا، اگر وہ ہماری جائز شرائط پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں، لیکن اب گیند کابل کے کورٹ میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ افغانستان سے آنے والے دہشت گرد حملوں کا پرامن حل نکالا جائے، مگر افغان حکومت کی جانب سے مسلسل گریز کا مظاہرہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ “افغان سرزمین سے آپریٹ کرنے والے دہشت گردوں کو کھلی چھٹی حاصل ہے، جب کہ ہماری صبر آزما کوششوں کے باوجود کابل انتظامیہ امن کے لیے تعاون نہیں کر رہی۔”
افغان سرزمین سے دہشتگرد حملے — "ہمیں مجبوراً جواب دینا پڑا”
وزیراعظم نے بتایا کہ حالیہ دنوں میں پاکستان کے سرحدی علاقوں، خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں نے افغان سرزمین سے حملے کیے، جن میں کئی سیکیورٹی اہلکار اور شہری شہید ہوئے۔
انہوں نے کہا:
“جب پاکستان پر حملہ ہو رہا تھا، اُس وقت افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر تھے۔ ایسے حالات میں ہمیں مجبورا اپنے دفاع میں جواب دینا پڑا۔”
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی افواج نے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا، جس کے بعد افغان حکومت نے فوری طور پر پاک افغان سیز فائر کی درخواست کی۔
“ہم نے انسانی ہمدردی کے تحت اور امن کے موقع کے طور پر 48 گھنٹے کے لیے پاک افغان سیز فائر کیا، لیکن اگر کابل کی نیت صرف وقت حاصل کرنا ہے تو ہم یہ چال قبول نہیں کریں گے۔”

پاک افغان سیز فائر، مگر دہشتگردی برداشت نہیں ہوگی”
شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے عوام کے ساتھ بھائی چارے اور خلوص کا مظاہرہ کیا ہے۔
“ہم نے افغان مہاجرین کو دہائیوں تک پناہ دی۔ محدود وسائل کے باوجود آج بھی 40 لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ ان کے دکھ درد کو اپنا سمجھا۔”
تاہم انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ “بھائی چارے کا مطلب یہ نہیں کہ دہشت گردوں کو ہمارے خون سے کھیلنے کی اجازت دی جائے۔ فتنۃ الخوارج کو افغانستان میں کھلی چھٹی حاصل ہے اور یہ گروہ ہمارے جوانوں، پولیس اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔”
وزیراعظم نے کہا کہ حالیہ واقعات کے بعد پاکستان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ اب اگر کابل نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔
اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد کا کابل دورہ
وزیر اعظم نے بتایا کہ حال ہی میں ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس میں وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ داخلہ محسن نقوی، اور دیگر حکومتی عہدیداران شامل تھے، کابل گیا۔
“ہم نے افغان حکومت کو کھل کر بتایا کہ ہم دونوں ہمسایہ ملک ہیں، ہمیں قیامت تک ساتھ رہنا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم امن سے رہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں۔”
انہوں نے کہا کہ اگر کابل حکومت سنجیدہ ہو، تو پاکستان ہر سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن اب یہ فیصلہ افغانستان کو کرنا ہے کہ وہ امن(پاک افغان سیز فائر) چاہتے ہیں یا محاذ آرائی۔
پاک افغان سیز فائر“قطر نے ثالثی کی کوشش کی” — وزیر اعظم(pakistan afghanistan ceasefire)
شہباز شریف نے بتایا کہ حالیہ پاک-افغان کشیدگی کے دوران دوست ممالک، خاص طور پر قطر نے ثالثی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
دورہ مصر کے دوران امیرِ قطر نے مجھ سے کہا کہ پاکستان پر حملہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے معاملے کے حل کے لیے ثالثی کی خواہش ظاہر کی، جس پر ہم نے شکریہ ادا کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ امن کی حمایت کی ہے، لیکن اگر کسی دوسرے ملک کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہیں، تو ہم خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔
“2018 میں دہشتگردی ختم ہو چکی تھی، مگر پھر فتنہ کیوں اٹھا؟”
وزیر اعظم نے ماضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 2018 میں پاکستان نے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کر دیا تھا۔
یہ سوال اہم ہے کہ آخر وہ فتنے نے دوبارہ سر کیوں اٹھایا؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے ہزاروں دہشت گردوں کو واپس آنے کی اجازت دی اور ان کے خلاف کارروائی روک دی۔ یہی بنیادی غلطی تھی جس کا خمیازہ آج قوم بھگت رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت دہشتگردی کے خاتمے کے لیے عزمِ مصمم رکھتی ہے اور کسی بھی گروہ یا تنظیم کو ملک کے امن سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دنیا بھارت کو دہشتگردی اور علاقائی عدم استحکام کا مرکز تسلیم کرتی ہے: آئی ایس پی آر
“غزہ میں امن معاہدہ، 70 ہزار شہادتیں اور پاکستان کا کردار”
اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے فلسطین کے مسئلے پر بھی تفصیل سے گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ “غزہ میں آخرکار امن معاہدہ ہو گیا ہے، مگر دو سالہ جنگ میں 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے۔”
شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے اور قیامِ امن کے لیے عالمی برادری کے ساتھ کوششیں کی ہیں۔
“غزہ کے دوران جب بے گناہ بچے اور عورتیں شہید ہو رہے تھے، تو کچھ لوگ یہاں سیاست کر رہے تھے۔ یہ رویہ اسلامی اور انسانی اصولوں کے منافی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ترکیہ، مصر، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ اور انڈونیشیا کے ساتھ مل کر امن کے لیے عملی کردار ادا کیا۔
“یہ ایک اجتماعی کوشش تھی، جس کا مقصد خون ریزی کا خاتمہ اور فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔”
“فلسطین کی ریاست اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق قائم ہونی چاہیے”
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف روزِ اول سے واضح ہے کہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے، جس کی بنیاد اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر ہو۔
انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ دو ریاستی حل کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن ممکن ہو۔
“آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا — اب خود انحصاری کی راہ اپنانا ہوگی”
وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے آخر میں ملکی معیشت پر بھی روشنی ڈالی۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ مکمل ہو چکا ہے اور جلد ہی اگلی قسط پاکستان کو موصول ہوگی۔
“یہ پروگرام پاکستان کے لیے ایک عبوری سہارا ہے، لیکن ہمارا مقصد مستقل بنیادوں پر خود انحصاری کی طرف جانا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت برآمدات کے فروغ، محصولات میں اضافے اور سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کے لیے پالیسیوں پر کام کر رہی ہے۔
“آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہونا چاہیے۔ ہمیں ایک خودمختار معیشت کی طرف بڑھنا ہوگا۔”
کیا پاکستان اس لیے بنا تھا؟
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب کے اختتام پر ایک جذباتی سوال اُٹھایا:
“کیا پاکستان اس لیے معرضِ وجود میں آیا تھا کہ آج ہم قرضوں، بدامنی اور سیاسی تقسیم میں گھرے ہوں؟ لاکھوں لوگوں نے قربانیاں اس لیے نہیں دیں کہ یہ ملک کمزور رہے۔ پاکستان ایک عظیم مقصد کے تحت بنا تھا — تاکہ یہ اسلامی دنیا کی قیادت کرے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔”
انہوں نے کہا کہ اگر ہم نیت، ایمانداری اور اتحاد کے ساتھ کام کریں تو پاکستان کو دنیا کی صفِ اوّل کی قوموں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا حالیہ خطاب ملکی سیاست، سیکیورٹی، خارجہ تعلقات اور معیشت کے اہم موڑ پر آیا ہے۔
ایک طرف افغان سرزمین سے دہشتگرد حملے جاری ہیں، دوسری طرف خطے میں غزہ کے امن معاہدے کے بعد نئی سفارتی صف بندی ہو رہی ہے۔
ایسے میں پاکستان کی پالیسی واضح ہے — امن کے ساتھ تعلقات، مگر خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔
"بہت خلوص کے ساتھ افغان حکومت کو سمجھایا گیا کہ وہاں بسنے والے ہمارے بہن اور بھائی ہیں۔ پاکستان اور افغانستان 2000 کلومیٹر کا بارڈر شیئر کرتے ہیں۔ پاکستان نے اپنے افغان بہنوں اور بھائیوں کے لیے ہمیشہ خلوص دل کے ساتھ جو کچھ بھی کیا اپنا فرض سمجھ کر کیا۔
باوجود اس کے کہ ہمارے… pic.twitter.com/AOw4PwWkKv
— Government of Pakistan (@GovtofPakistan) October 16, 2025
Comments 1