غزہ میں امن چاہتے ہیں تو تمام 20 یرغمالیوں کی رہائی کی حمایت کریں، ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب، اقوام متحدہ پر کڑی تنقید، عالمی جنگوں اور امن کا نیا بیانیہ
نیویارک : — اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 57 منٹ طویل خطاب کیا جو کہ اس عالمی ادارے کی تاریخ کے طویل ترین خطابات میں شمار ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی مخصوص جرات مندانہ اور جارحانہ طرزِ بیان میں جہاں امریکا کی کامیابیوں کا ذکر کیا وہیں اقوام متحدہ کے کردار پر بھی شدید سوالات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر دنیا میں جنگیں رکوانی امریکا کو ہی ہیں تو پھر اقوام متحدہ کے وجود کا مقصد کیا ہے؟‘‘
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب محض ایک رسمی تقریر نہیں تھا بلکہ عالمی سیاست، مشرقِ وسطیٰ، روس-یوکرین تنازع، ایران، غیر قانونی امیگریشن، توانائی پالیسی اور حتیٰ کہ یورپی ممالک کے کردار پر بھی ایک کھلا تبصرہ تھا۔
اقوام متحدہ کے کردار پر سوالیہ نشان
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب کا ایک بڑا حصہ اقوام متحدہ پر تنقید کے لیے مختص کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف سات ماہ کے دوران انہوں نے دنیا کی سات بڑی جنگوں کو ختم کروایا، جن میں بعض تنازعات 31 برس سے جاری تھے۔ ٹرمپ کے مطابق یہ اقوام متحدہ کی نہیں بلکہ امریکی صدر کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’جب میں نے یہ جنگیں بند کروائیں تو اقوام متحدہ سے ایک شکریے کا فون تک نہیں آیا۔ یہ ادارہ کھوکھلے الفاظ سے زیادہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا۔‘‘
یہ الفاظ اس عالمی ادارے کے مستقبل کے بارے میں ایک نئی بحث چھیڑ گئے ہیں کہ آخر یہ ادارہ کس حد تک اپنے مقاصد میں کامیاب ہے۔
امریکا کی داخلی صورتحال — سنہرا دور یا دعوے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب میں داخلی سیاست اور معیشت پر خاص زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ سے انہیں معاشی بربادی ورثے میں ملی، لیکن صرف آٹھ ماہ کے اندر امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ:
افراط زر پر قابو پا لیا گیا ہے۔
اسٹاک مارکیٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
امریکی کارکنوں کی تنخواہیں گزشتہ 60 برس کی سب سے زیادہ شرح سے بڑھ رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اعلان کیا کہ امریکا کی سرحدیں اب محفوظ ہیں اور غیر قانونی طور پر آنے والوں کی آمد ’’صفر‘‘ ہوچکی ہے۔ ان کے مطابق ماضی میں لاکھوں لوگ بائیڈن کی پالیسیوں کی وجہ سے امریکا میں داخل ہوئے تھے لیکن اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے۔
مشرق وسطیٰ اور ایران پر سخت موقف
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب کے دوران ایران کے حوالے سے ٹرمپ کا لہجہ ہمیشہ کی طرح سخت رہا۔ انہوں نے کہا کہ ایران دہشت گردی کا سب سے بڑا حمایتی ہے اور اسے ایٹمی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ان کے مطابق ان کی قیادت میں ’’بی ٹو بمبار طیاروں کے ذریعے ایران کی جوہری صلاحیت کو تباہ کیا گیا‘‘۔
غزہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ وہ طویل عرصے سے جنگ بندی کی کوشش کر رہے ہیں لیکن حماس نے ہمیشہ امن معاہدوں کو مسترد کیا۔ انہوں نے واضح کیا:
’’ہم غزہ سے تمام 20 یرغمالیوں کی فوری رہائی چاہتے ہیں۔ اگر آپ امن چاہتے ہیں تو حماس کے مطالبات پورے کرنے کے بجائے ان یرغمالیوں کی رہائی پر زور دیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ مختلف ممالک کا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دراصل حماس کے لیے انعام کے مترادف ہوگا، جو امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
روس-یوکرین جنگ اور یورپی ممالک کی دوہری پالیسی
ٹرمپ نے روس اور یوکرین کے تنازع پر براہِ راست بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے تھے کہ پیوٹن کے ساتھ تعلقات کے باعث یہ جنگ ختم کرنا آسان ہوگا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ:
اگر روس جنگ ختم کرنے پر راضی نہ ہوا تو اس پر سخت تجارتی ٹیرف عائد کیے جائیں گے۔
چین اور بھارت روس سے تیل خرید کر اس جنگ کو طول دے رہے ہیں۔
یورپی ممالک بھی روس سے توانائی خرید رہے ہیں، حالانکہ وہ بظاہر روس کے خلاف کھڑے ہیں۔
ٹرمپ نے یورپ کو کھلا پیغام دیا کہ روس کے ساتھ توانائی کے منصوبے فوری طور پر بند کریں ورنہ یہ دوہرا رویہ جاری جنگ کو مزید بڑھائے گا۔
مسئلہ فلسطین: اقوام متحدہ کے اجلاس میں دو ریاستی حل کی نئی امید
بایولوجیکل ہتھیار اور مصنوعی ذہانت کا نظام
ایک اہم نکتہ جو ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب میں نمایاں رہا وہ بایولوجیکل ہتھیاروں کے خلاف ان کی مہم تھی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ امریکا ایک بین الاقوامی کوشش کی قیادت کرے گا تاکہ ان مہلک ہتھیاروں کو مکمل طور پر ختم کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ’’تصدیقی نظام‘‘ تجویز کیا جس پر دنیا کے تمام ممالک اعتماد کر سکیں۔
یہ اعلان مستقبل میں عالمی سکیورٹی کے ڈھانچے پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے کیونکہ اب تک اس نوعیت کی ٹیکنالوجی پر کوئی عالمی اتفاق رائے نہیں ہوا۔
لندن کے میئر اور امیگریشن پر سخت تبصرہ
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب میں لندن کے میئر صادق خان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے بقول:
’’لندن میں آج ایک خوفناک میئر ہے جو شریعت نافذ کرنا چاہتا ہے، مگر ایسا کر نہیں سکتا۔‘‘
انہوں نے غیر قانونی امیگریشن کو صرف امریکا نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک ’’عالمی خطرہ‘‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق تارکینِ وطن کا دباؤ معیشت اور سلامتی دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔
ماحولیاتی پالیسی اور توانائی
گرین انرجی پالیسیوں پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے انہیں ’’مہنگی اور تباہ کن‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پالیسیاں آزاد دنیا کو تیزی سے زوال کی طرف دھکیل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا:
’’اگر آپ دوبارہ عظیم بننا چاہتے ہیں تو آپ کو مضبوط سرحدوں اور روایتی توانائی ذرائع کی ضرورت ہے۔‘‘
یہ بیان اس وقت کے ماحول دوست حلقوں کے لیے ایک براہِ راست چیلنج تھا جو دنیا بھر میں قابلِ تجدید توانائی کے فروغ پر زور دے رہے ہیں۔
سب سے طویل خطاب اور تکنیکی رکاوٹ
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب کے آخر میں یہ بات بھی خاصی نمایاں رہی کہ ٹرمپ کا یہ خطاب جنرل اسمبلی کی تاریخ کا طویل ترین خطاب ثابت ہوا جو 57 منٹ جاری رہا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تقریر شروع ہونے سے قبل ٹیلی پرامپٹر میں تکنیکی خرابی بھی آگئی تھی، لیکن ٹرمپ نے اپنے مخصوص اعتماد کے ساتھ اس صورتحال پر قابو پا لیا۔
کیا واقعی یہ امریکا کا ’’سنہرا دور‘‘ ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب محض امریکی کامیابیوں کی نمائش نہیں بلکہ ایک عالمی پیغام بھی تھا۔ انہوں نے اپنی قیادت کو امن کا ضامن اور امریکا کو دنیا کا سب سے طاقتور ملک ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ان کے دعوے زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں؟
امریکا کی معیشت واقعی مضبوط ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور معاشی دباؤ اب بھی موجود ہیں۔
غیر قانونی امیگریشن کی روک تھام ایک بڑا چیلنج ہے، جس پر ٹرمپ کے دعوے پر شکوک ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
ایران اور فلسطین پر ان کی سخت پالیسی مزید تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔
روس-یوکرین جنگ کے حوالے سے ان کے بیانات یورپ اور نیٹو ممالک میں نئی بحث کو ہوا دے سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب بلاشبہ عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔ انہوں نے نہ صرف امریکا کی کامیابیوں کو اجاگر کیا بلکہ اقوام متحدہ، یورپ، چین، بھارت، ایران اور حماس تک سب پر تنقید کے تیر برسائے۔ ان کا لہجہ روایتی سفارتی آہنگ سے ہٹ کر براہِ راست اور بے باک تھا۔
دنیا کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ آیا ٹرمپ کے بیانات محض انتخابی نعرے ہیں یا وہ واقعی ایک نئے عالمی نظام کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ وقت ہی بتائے گا کہ موجودہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اقوام متحدہ میں خطاب(donald trump un speech) تاریخ میں کس عنوان سے یاد رکھا جائے گا — ’’امریکا کا سنہرا دور‘‘ یا ’’ٹرمپ کا جارحانہ بیانیہ‘‘۔
The most expected, without this Trump's speech would have been considered incomplete.
Trump says, "I ended 7 wars in just 7 months," includes India-Pakistan war.
Orange Man is very predictable, the funniest president of the USA. #DonaldTrump #UNGA80pic.twitter.com/qSv7eQL1CE
— VAISHNAV SHARAN SHARMA (@VaishnavSharan7) September 23, 2025










Comments 1