کوئٹہ میں بی این پی رہنما اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا، سردار اختر مینگل دھماکے میں محفوظ رہے 5 جاں بحق اور 29 زخمی
کوئٹہ : — بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں شاہوانی اسٹیڈیم کے باہر بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کی ریلی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 29 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دھماکے کی خبر ملتے ہی ریسکیو ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ گئیں اور زخمیوں کو علاج کے لیے سول ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ابتدائی طبی امداد کے بعد ٹراما سینٹر میں داخل کیا گیا۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ نے ڈان کو بتایا کہ دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد پانچ ہے، جبکہ زخمی ہونے والے 29 افراد کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ زخمیوں کی حالت مستحکم بتائی گئی ہے، اور انہیں مکمل طبی نگہداشت فراہم کی جا رہی ہے۔
بی این پی مینگل کا موقف
بی این پی کے نائب صدر ساجد ترین نے سول ہسپتال میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا میں پارٹی کے 13 کارکن شہید ہوئے اور متعدد کارکن زخمی ہوئے ہیں۔ ساجد ترین کے مطابق دھماکا جلسے کے اختتام کے بعد پارکنگ ایریا میں ہوا۔ اس دھماکے میں سابق ایم پی اے احمد نواز اور مرکزی رہنما موسی بلوچ بھی زخمی ہوئے ہیں۔
ساجد ترین نے مزید کہا کہ انہیں پہلے سے اس قسم کے ناخوشگوار واقعے کا خدشہ تھا، جس کی اطلاع ضلعی انتظامیہ کو دی گئی تھی تاکہ ریلی اور شرکا کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور حکومت و سیکیورٹی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔
حکومت بلوچستان اور سیکیورٹی اقدامات
بلوچستان حکومت نے اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ دھماکا انسانیت دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ شرپسند عناصر معصوم شہریوں کے خون سے کھیل رہے ہیں اور دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو ہر صورت ناکام بنایا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے واقعے کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کمیٹی قائم کر دی۔ انہوں نے کہا کہ اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا میں ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایک بیان میں کہا کہ اطلاعات کے مطابق کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، سردار اختر مینگل اور بی این پی کی قیادت محفوظ ہیں۔ ترجمان نے یقین دلایا کہ بی این پی کی ریلی کے شرکا اور پارٹی قیادت کی حفاظت صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
پس منظر: بی این پی مینگل کے لانگ مارچ پر سابقہ حملے
یہ واقعہ مارچ 2025 میں بی این پی مینگل کے لانگ مارچ کے دوران پیش آیا۔ 29 مارچ 2025 کو وڈھ سے کوئٹہ کی جانب مارچ کے دوران مستونگ کے قریب ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، تاہم سردار اختر مینگل اور دیگر رہنما محفوظ رہے تھے۔ اس وقت بلوچستان حکومت نے یقین دلایا تھا کہ ریلی کے شرکا اور پارٹی قیادت کی حفاظت یقینی بنائی گئی ہے۔
اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا بلوچستان میں سیاسی جلسوں اور ریلیوں پر خودکش حملوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے خطرات کا مظہر ہے، جہاں پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کی حفاظت ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے۔
ریسکیو اور ہنگامی اقدامات
محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ریسکیو ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ گئی ہیں اور زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھا کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت نے واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ ریسکیو اور ہنگامی ٹیمیں زخمیوں کی فوری طبی امداد فراہم کر رہی ہیں اور متاثرہ علاقے میں سیکیورٹی کو سخت کیا گیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹا جا سکے۔
پی او آر کارڈ ہولڈر افغان باشندوں کو رضاکارانہ ملک چھوڑنے کی ڈیڈلائن ختم
عوامی ردعمل اور سیاسی اثرات
اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا عوامی سطح پر شدید تشویش اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایسے دھماکے مقامی سیاست اور عوامی اعتماد کو متاثر کر سکتے ہیں۔اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا کے نتیجے میں بی این پی مینگل کی ریلی کے شرکا خوفزدہ ہو گئے اور سیاسی اجتماعات میں سیکیورٹی کی اہمیت کو بڑھا دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر بھی واقعے کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردانہ حملوں کو جڑ سے ختم کریں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق یہ واقعہ بلوچستان میں سیاسی جلسوں اور عوامی اجتماعات میں سیکیورٹی کے اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
بلوچستان میں سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال (akhtar mengal blast)
بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے اور سیاسی تنظیموں کے اجتماعات پر حملے ایک عام خطرہ بن چکے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی ریلیوں اور اجتماعات پر خودکش حملے اور دھماکے ہوئے، جن میں سیاسی رہنماؤں اور عوامی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ سلسلہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اور سیاسی استحکام کے لیے چیلنجز پیدا کرتا ہے۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں سیاسی اجتماعات اور ریلیوں کے دوران اضافی سیکیورٹی اقدامات اور ہنگامی منصوبہ بندی ضروری ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ حملے سے عوام اور کارکن محفوظ رہ سکیں۔
کوئٹہ میں شاہوانی اسٹیڈیم کے باہر بلوچستان نیشنل پارٹی اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا نہ صرف پارٹی کارکنوں اور عوام کے لیے خطرناک ثابت ہوا بلکہ بلوچستان میں سیاسی اجتماعات اور عوامی اجتماعات کی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان بھی لگا دیا۔ پانچ افراد کی جان جانے اور 29 زخمی ہونے کے بعد حکومت اور سیکیورٹی اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھانے اور دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دیگر حکام نے اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے اور متاثرہ افراد کے لیے امدادی اقدامات فوری طور پر جاری ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھا کرنے کا کام شروع کر دیا ہے اور عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں اور اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔
اختر مینگل کی گاڑی پر دھماکا بلوچستان میں سیاسی و سیکیورٹی چیلنجز کی اہمیت کو واضح کرتا ہے اور اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ مستقبل میں سیاسی اجتماعات کی حفاظت اور سیکیورٹی اقدامات کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔
#Quetta
Bomb blast outside shawani stadium saryab 3 killed dozens injured#BNP Sardar Akhter Mengal is safe#Balochistan pic.twitter.com/VfXg7t5HOz
— 🇵🇰🇵🇰 Mujeeb Ahmed 🇵🇰🇵🇰 (@Mjueebkhan1) September 2, 2025
Comments 1