انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 9 مئی 2023 کے پُرتشدد واقعات کے ایک اہم مقدمے، رانا ثنا کے گھر حملے کا کیس، کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت سمیت 59 ملزمان کو 10، 10 سال قید کی سزائیں سنا دیں
عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید 16 ملزمان کو 3، 3 سال قید کی سزا سنائی جبکہ 34 افراد کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا۔
یہ فیصلہ اس مقدمے کے سلسلے میں ایک بڑی پیش رفت ہے جس میں پی ٹی آئی کی صفِ اول کی قیادت براہ راست نامزد اور ملوث قرار دی گئی تھی۔ عدالت نے تمام ملزمان کو ان کی غیر موجودگی میں سزائیں سنائیں، جس کے بعد ملک کی سیاسی فضا میں ایک نئی ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔
مقدمے کا پس منظر
9 مئی 2023 کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری و نجی املاک پر حملوں کے واقعات رونما ہوئے۔ انہی واقعات کے دوران فیصل آباد میں بھی توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کے چار مقدمات درج ہوئے۔ تین مقدمات کے فیصلے پہلے ہی سنائے جا چکے تھے، تاہم سب سے اہم مقدمہ وہ تھا جو وفاقی وزیر داخلہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے گھر پر حملے اور توڑ پھوڑ سے متعلق تھا۔
یہ مقدمہ تھانہ سمن آباد فیصل آباد میں درج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سمیت 109 افراد کو نامزد کیا گیا۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے رانا ثنا کے گھر پر دھاوا بولتے ہوئے نقصان پہنچایا، توڑ پھوڑ کی اور تشدد کو ہوا دی۔ اسی مقدمے کو بعد ازاں "رانا ثنا کے گھر حملے کا کیس” کے نام سے شہرت ملی۔

انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ
خصوصی عدالت نے اس مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے بعد مجموعی طور پر 75 ملزمان کو مختلف سزائیں سنائیں:
- 59 ملزمان کو 10، 10 سال قید
- 16 ملزمان کو 3، 3 سال قید
- 34 ملزمان کو بری
یہ فیصلہ تمام ملزمان کی غیر موجودگی میں سنایا گیا، جس پر قانونی ماہرین اور سیاسی حلقوں میں مختلف آراء سامنے آئی ہیں۔
سزا پانے والے اہم رہنما
عدالت کی جانب سے جن پی ٹی آئی رہنماؤں کو 10، 10 برس قید کی سزا سنائی گئی ان میں اہم نام شامل ہیں:
- عمر ایوب خان (سابق وفاقی وزیر)
- شبلی فراز (سابق وفاقی وزیر اطلاعات)
- زرتاج گل (سابق وزیر مملکت)
- شیخ راشد شفیق (رکن قومی اسمبلی)
- رائے مرتضیٰ اقبال
- کنول شوزب (رکن قومی اسمبلی)
- اسماعیل سیلا
- عنصر اقبال
- بلال اعجاز
- اشرف سوہنا
- مہر جاوید
- شکیل نیازی
ان رہنماؤں کو عدالت نے سخت سزاؤں کا مستحق قرار دیا۔

بری ہونے والے رہنما
عدالت نے بعض نامزد ملزمان کو عدم شواہد کی بنا پر بری بھی کیا۔ بری ہونے والوں میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری، رکن قومی اسمبلی زین قریشی اور دیگر کئی اہم افراد شامل ہیں۔
یہ بریت پی ٹی آئی کے لیے کسی حد تک ریلیف کے مترادف قرار دی جا رہی ہے، تاہم مجموعی فیصلے نے پارٹی قیادت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
کیس کی اہمیت اور سیاسی اثرات
رانا ثنا کے گھر حملے کا کیس صرف ایک عدالتی مقدمہ نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب بھی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف پی ٹی آئی کی قیادت کے مستقبل پر اثر ڈالے گا بلکہ ملک کی سیاست پر بھی گہرے نقوش چھوڑے گا۔
قانونی ماہرین کے مطابق عدالت کا یہ فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ ریاستی ادارے 9 مئی کے واقعات کو نظر انداز کرنے پر آمادہ نہیں اور ایسے مقدمات میں سخت ترین سزائیں دی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے حلقے اس فیصلے کو "انتقامی کارروائی” قرار دے رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ فیصلہ ملزمان کی غیر موجودگی میں سنایا گیا ہے، اس لیے ان کے پاس اپیل کا حق موجود ہے۔ زیادہ امکان ہے کہ سزا پانے والے رہنما اپیل کے ذریعے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کریں گے۔
عوامی اور سیاسی ردعمل
فیصلے کے بعد حکومتی اور اپوزیشن حلقوں میں سخت ردعمل سامنے آیا۔
- مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے عدالت کے فیصلے کو "انصاف کی فتح” قرار دیا اور کہا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔
- پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے فیصلے کو "سیاسی انتقام” اور "جمہوری آزادیوں پر حملہ” قرار دیا۔
عوامی حلقوں میں بھی اس فیصلے پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ افراد کے نزدیک یہ سزا ریاستی اداروں کی رٹ قائم کرنے کے لیے ضروری تھی، جبکہ بعض کے نزدیک اس سے سیاسی تقسیم مزید بڑھے گی۔
9 مئی کیس میں عمر ایوب، شبلی فراز، حامد رضا، زرتاج گل کو 10 سال قید کی سزا
مستقبل کے امکانات
اب دیکھنا یہ ہے کہ رانا ثنا کے گھر حملے کا کیس میں سزا پانے والے رہنما کب اور کس صورت میں اپیل کرتے ہیں اور اعلیٰ عدالتیں اس فیصلے پر کیا ردعمل دیتی ہیں۔ یہ مقدمہ مستقبل میں بھی سیاسی اور قانونی بحث کا مرکز رہنے کا امکان ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف 9 مئی کے واقعات کی سنگینی کو اجاگر کرتا ہے بلکہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے کردار اور قانون کی بالادستی پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ رانا ثنا کے گھر حملے کا کیس آئندہ کئی برسوں تک ملکی سیاست اور عدلیہ کے مباحثوں میں زیرِ بحث رہے گا۔