راولپنڈی میں نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد، جسم پر نشانات پڑ گئے
راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد کی خبر نے والدین، شہریوں اور تعلیمی حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
واقعہ اس وقت پیش آیا جب ایک استاد نے مبینہ طور پر سبق یاد نہ کرنے پر پانچویں جماعت کے طالب علم کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔
واقعے کی تفصیل
رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ کلر سیداں کے ایک نجی اسکول میں پیش آیا۔
استاد نے طالب علم پر اس قدر تشدد کیا کہ اس کے جسم پر واضح نشانات اور نیل پڑ گئے۔
متاثرہ بچے کے مطابق، وہ اپنا سبق یاد نہیں کر سکا تھا جس پر استاد نے غصے میں آ کر اسے سخت مارا پیٹا۔
یہ افسوسناک خبر سامنے آنے کے بعد نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد کا معاملہ سوشل میڈیا پر بھی زیرِ بحث ہے۔
طالب علم اور والدین کا مؤقف
پانچویں جماعت کے متاثرہ طالب علم نے بتایا کہ استاد نے سبق نہ سنانے پر ڈنڈے سے مارا، جس سے جسم کے کئی حصوں پر نیل پڑ گئے۔
بچے کے والدین نے شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسکول میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔
انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب اور سی ای او ایجوکیشن سے اپیل کی ہے کہ نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد کے اس واقعے کا فوری نوٹس لیا جائے اور ذمہ دار شخص کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
اسکول انتظامیہ کا ردعمل
اس حوالے سے اسکول انتظامیہ نے فوری طور پر ردعمل دیتے ہوئے بیان دیا کہ مذکورہ استاد کو نوکری سے برخاست کر دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ادارہ جسمانی تشدد کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا اور ایسے واقعات پر زیرو ٹالرنس پالیسی پر عمل کرتا ہے۔
تاہم، اسکول نے یہ بھی کہا کہ قانونی کارروائی والدین کا حق ہے اور وہ مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔
یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اب نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد جیسے واقعات پر تعلیمی ادارے بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
جسمانی تشدد — ایک سماجی المیہ
پاکستان میں بچوں پر جسمانی تشدد کے واقعات کوئی نئی بات نہیں، تاہم ہر واقعہ یہ سوال ضرور اٹھاتا ہے کہ ہمارے اسکولوں میں تربیت کا نظام کہاں کمزور ہے؟
ماہرین تعلیم کے مطابق ایسے واقعات طلبہ کی ذہنی نشوونما پر منفی اثر ڈالتے ہیں اور خوف کی فضا پیدا کرتے ہیں۔
اسی پس منظر میں نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد جیسے کیسز اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اساتذہ کی تربیت اور اخلاقی رہنمائی کو بہتر بنانا وقت کی ضرورت ہے۔
قانونی پہلو اور حکومتی موقف
پاکستان میں بچوں پر تشدد کے خلاف متعدد قوانین موجود ہیں، جن میں “چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ” بھی شامل ہے جو اسکولوں، گھروں یا کسی بھی ادارے میں بچوں پر جسمانی یا ذہنی تشدد کو جرم قرار دیتا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر والدین مقدمہ درج کراتے ہیں تو استاد کے خلاف باقاعدہ کارروائی کی جا سکتی ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے ممکنہ طور پر اس معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے تاکہ نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد جیسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔
تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کا صحیح طریقہ
تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کو سزا دینے کے بجائے مثبت تربیت اور رہنمائی سے ان کے رویے بہتر کیے جا سکتے ہیں۔
اساتذہ کو چاہیے کہ وہ صبر، تحمل اور تربیتی طریقوں کو اپنائیں بجائے اس کے کہ وہ جسمانی سزا کو حل سمجھیں۔
یونیسف کی رپورٹس کے مطابق، دنیا بھر میں اسکولوں میں تشدد کے واقعات تعلیمی معیار کو متاثر کرتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اساتذہ کی تربیت میں نفسیاتی تعلیم اور اخلاقی تربیت کو لازمی قرار دے تاکہ نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد جیسے افسوسناک واقعات کا خاتمہ ہو۔
والدین اور عوام کا ردعمل
اس واقعے کے بعد والدین اور شہریوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کا اظہار کیا۔
بعض صارفین نے مطالبہ کیا کہ استاد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، جبکہ دیگر نے اساتذہ کی تربیت کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ کیا۔
کئی لوگوں نے اس واقعے کو تعلیمی نظام کی ناکامی قرار دیا، جس میں طلبہ کے حقوق کی حفاظت کا مؤثر نظام موجود نہیں۔
یہ عوامی ردعمل اس بات کا ثبوت ہے کہ نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد جیسے کیسز اب چھپ نہیں سکتے۔
اصلاح کی ضرورت
یہ واقعہ ایک بار پھر یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اساتذہ کے لیے پیشہ ورانہ تربیت، اسکولوں میں شکایت سیل، اور والدین کے ساتھ مربوط رابطہ کاری نظام وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
حکومت اگر ایسے واقعات پر فوری اور مؤثر کارروائی کرے تو آئندہ نسلوں کو ایک محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کیا جا سکتا ہے۔
نجی اسکول استاد کا طالب علم پر تشدد صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک قومی چیلنج ہے جسے ہم سب کو مل کر حل کرنا ہوگا۔
Comments 1