راولپنڈی: سدرہ قتل کیس میں والد، بھائی، سابق شوہر سمیت 6 افراد گرفتار، جرم کا اعتراف — عدالت نے چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا
راولپنڈی میں 17 سالہ سدرہ کے لرزہ خیز قتل کیس میں نیا موڑ اُس وقت آیا جب گرفتار کیے گئے چھ ملزمان نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ عدالت نے پولیس کی درخواست پر تمام ملزمان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے یکم اگست کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
عدالت میں پیشی: سکیورٹی کے سخت انتظامات
ایکسپریس نیوز کے مطابق، پولیس نے چھ ملزمان کو سخت سیکیورٹی اور بھاری نفری کے ساتھ سول جج قمر عباس تارڑ کی عدالت میں پیش کیا۔ عدالت کے باہر شہریوں کی بڑی تعداد جمع تھی جو اس افسوسناک واقعے پر اظہار مذمت اور انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس نے ملزمان کے چہروں کو ڈھانپ رکھا تھا تاکہ شناخت ظاہر نہ ہو سکے۔
گرفتار ملزمان کون ہیں؟
گرفتار ہونے والوں میں مقتولہ سدرہ کا والد عرب گل، بھائی ظفر گل، سابق شوہر ضیاء الرحمان، مقتولہ کا چچا مانی، سسر سلیم، اور مبینہ طور پر قتل کا حکم دینے والا جرگے کا سربراہ عصمت اللہ شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق ان تمام افراد نے مل کر سدرہ کو "غیرت” کے نام پر قتل کرنے کی سازش کی اور عملدرآمد بھی کیا۔
جرم کا اعتراف، سنسنی خیز انکشافات
تفتیشی افسر نے عدالت میں بیان دیا کہ ابتدائی تفتیش میں تمام ملزمان نے جرم کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے مطابق سدرہ کو گلا دبا کر قتل کیا گیا، اور واردات میں استعمال ہونے والا تکیہ اور دیگر شواہد برآمد کیے جانے ہیں۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزمان سے مزید تفتیش کرنی ہے، آلات قتل برآمد کرنے ہیں اور ان کے تحریری بیانات لینے ہیں، لہٰذا سات روزہ جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ تاہم عدالت نے چار دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
پس منظر: غیرت کے نام پر بہیمانہ قتل
ذرائع کے مطابق، سدرہ کی شادی کم عمری میں زبردستی ضیاء الرحمان سے کر دی گئی تھی، جو بعد میں طلاق پر منتج ہوئی۔ طلاق کے بعد سدرہ نے ازخود پسند کی شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی، جو اس کے خاندان کو قبول نہ تھی۔ اسی "غیرت” کے نام پر سدرہ کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
سماجی ردعمل اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مذمت
سدرہ قتل کیس نے نہ صرف مقامی برادری کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور خواتین کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں نے بھی واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ تنظیموں کا کہنا ہے کہ "غیرت کے نام پر قتل” پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی بدترین شکل ہے، اور ریاستی اداروں کو اس رویے کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
عدالت نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ چار روزہ جسمانی ریمانڈ کے دوران تفتیش مکمل کرے اور یکم اگست کو دوبارہ ملزمان کو عدالت میں پیش کرے۔ کیس کی حساسیت کے پیش نظر امکان ہے کہ تفتیشی رپورٹ میں مزید گرفتاریاں یا انکشافات سامنے آئیں گے۔