شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025 : شی جن پنگ کا وژن اور عالمی اتحاد کی نئی جہت ،شنگھائی تعاون تنظیم پر رکن ممالک کی ترقی و خوشحالی کے فروغ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے، چینی صدر
چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025 (ایس سی او) کے سیکیورٹی فورم پر اب صرف "علاقائی امن و استحکام کے تحفظ” کی نہیں بلکہ رکن ممالک کی ترقی، خوشحالی اور اجتماعی اتحاد کو آگے بڑھانے کی بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب چین کے شمالی شہر تیانجن میں ایس سی او کا سربراہی اجلاس منعقد ہوا، جس میں دنیا کے تقریباً 20 ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ نمائندے شریک تھے۔ اجلاس کو نہ صرف گلوبل ساؤتھ (Global South) کے اتحاد کی علامت قرار دیا جا رہا ہے بلکہ اسے ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیائی خطے میں طاقت کے نئے توازن کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
ایس سی او سے شی جن پنگ کا خطاب اور وژن
چینی صدر نے خیرمقدمی عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایس سی او اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اسے محض ایک علاقائی تنظیم کے طور پر نہیں بلکہ ایک عالمی اثر رکھنے والی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق:
"ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ایس سی او کو نہ صرف امن و سلامتی کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں بلکہ اسے رکن ممالک کی معاشی ترقی، عوامی خوشحالی اور عالمی اتحاد کے لیے بھی کلیدی حیثیت دیں۔”
شی جن پنگ نے اعتماد ظاہر کیا کہ تمام رکن ممالک کے باہمی تعاون اور عزم کے باعث یہ اجلاس ایک کامیاب موڑ ثابت ہوگا اور ایس سی او مستقبل میں زیادہ بڑا کردار ادا کرے گی۔
ایس سی او کا پس منظر
شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001ء میں رکھی گئی۔ ابتدا میں یہ صرف ایک سیکیورٹی اتحاد تھا تاکہ وسطی ایشیائی ممالک میں دہشتگردی، علیحدگی پسندی اور انتہاپسندی کے خطرات سے نمٹا جا سکے۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کے مقاصد میں وسعت آتی گئی اور اب یہ ایک کثیرالجہتی پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
آج ایس سی او کے رکن ممالک میں چین، روس، بھارت، پاکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان، ایران اور کئی مبصر ممالک شامل ہیں۔ یہ ممالک دنیا کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد اور عالمی معیشت کا بڑا حصہ رکھتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025 کی اہمیت
چینی خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق، تیانجن شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025 کو ایس سی او کی تاریخ کا سب سے بڑا سالانہ اجلاس قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان کئی اہم معاہدوں اور دستاویزات کی منظوری دی جائے گی جن میں سب سے اہم "آئندہ دہائی کی ترقیاتی حکمت عملی” ہے۔
یہ حکمت عملی ایس سی او کو اگلے دس برسوں میں نہ صرف خطے کے سب سے مضبوط کثیرالجہتی اتحاد میں بدلنے میں مدد دے گی بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک نیا بیانیہ پیش کرے گی، جو مغربی طاقتوں کے یکطرفہ رویے کے مقابل ایک متوازن اور اجتماعی طرزِ حکمرانی کا ماڈل ہو سکتا ہے۔
علاقائی امن اور سیکیورٹی
شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ایس سی او کا بنیادی ہدف امن و استحکام ہے۔ ان کے مطابق:
خطے میں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی ضروری ہے۔
کسی ایک ملک کی سلامتی دوسرے ملک کی قربانی پر قائم نہیں ہو سکتی۔
ایس سی اورکن ممالک کو "اجتماعی سلامتی” کا نظریہ اپنانا ہوگا تاکہ بیرونی خطرات اور اندرونی مسائل دونوں کا مؤثر حل نکل سکے۔
یہ بیان اس تناظر میں بھی اہم ہے کہ افغانستان کی صورتحال، مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی اور یوکرین تنازع جیسے مسائل خطے پر براہِ راست اثر ڈال رہے ہیں۔
اقتصادی تعاون اور ترقی
چینی صدر نے زور دیا کہ ایس سی او کو اقتصادی تعاون کا ایک مضبوط پلیٹ فارم بننا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے چند اہم نکات بیان کیے:
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کو ایس سی او کے ساتھ مربوط کرنا۔
رکن ممالک کے درمیان تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنا۔
توانائی، انفراسٹرکچر اور ڈیجیٹل معیشت میں تعاون بڑھانا۔
مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دینا تاکہ ڈالر پر انحصار کم ہو۔
یہ نکات اس بات کا مظہر ہیں کہ چین چاہتا ہے ایس سی او صرف سیاسی یا سیکیورٹی اتحاد نہ رہے بلکہ ایک معاشی بلاک کی صورت بھی اختیار کرے۔
چینی ٹیکنالوجی اور طریقے قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے سودمند ثابت ہوں گے، شہباز شریف کا تیانجن یونیورسٹی سے خطاب
عالمی سطح پر نئی سفارت کاری
شی جن پنگ نے کہا کہ ایس سی او اب ایک ایسی قوت بن چکی ہے جو بین الاقوامی تعلقات کی نئی قسم متعارف کروا رہی ہے۔ ان کے مطابق، ایس سی او "انسانیت کے مشترکہ مستقبل” کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار ادا کرے گی۔
یہ دراصل مغربی طاقتوں کے مقابل ایک بیانیہ ہے۔ جہاں مغرب بالخصوص امریکہ یکطرفہ پالیسیاں اختیار کرتا ہے، وہیں چین اور اس کے اتحادی ممالک کثیرالجہتی تعاون پر زور دیتے ہیں۔
پاکستان اور دیگر رکن ممالک کا کردار
اس ایس سی او میں پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور ایران کے صدر مسعود پزشکیان سمیت کئی اہم رہنما شریک ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025 نہ صرف معاشی مواقع کا باعث ہے بلکہ خطے میں سفارتی اور تجارتی روابط بڑھانے کا بہترین موقع بھی ہے۔
ترکیہ اور ایران کی شمولیت سے ایس سی او کو ایک مشرق وسطیٰ رابطہ پلیٹ فارم بھی حاصل ہو رہا ہے۔
روس اور چین اس اتحاد کے مرکزی ستون ہیں جو اسے عالمی سطح پر طاقتور بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مستقبل کا منظرنامہ(sco summit 2025)
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس 2025 عالمی سیاست میں ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ:
یہ مغرب کے متوازی ایک نیا عالمی اتحاد تشکیل دے رہا ہے۔
خطے کے ممالک اپنی معیشت اور سیکیورٹی کے مسائل مل کر حل کرنے پر تیار ہیں۔
ایس سی او آنے والے وقت میں اقوامِ متحدہ کے بعد سب سے اہم عالمی پلیٹ فارم بن سکتا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ کا خطاب دراصل ایس سی او کے مستقبل کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ ان کا پیغام یہ ہے کہ:
ایس سی او اب محض ایک علاقائی سیکیورٹی اتحاد نہیں رہا۔
یہ ایک عالمی سیاسی، معاشی اور سفارتی قوت کے طور پر ابھر رہا ہے۔
اگر رکن ممالک مل کر آگے بڑھیں تو یہ اتحاد نہ صرف اپنے خطے بلکہ پوری دنیا کے امن، ترقی اور استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
Chinese President #XiJinping and his wife, Peng Liyuan, on Sunday hosted a banquet in China's port city of #Tianjin to welcome international guests attending the Shanghai Cooperation Organization (SCO) Summit 2025. #SCO2025 pic.twitter.com/3PWjvPmx4k
— China Perspective (@China_Fact) August 31, 2025
Comments 1