دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں سڑکوں سے غائب — ماحولیاتی اداروں کا بڑا فیصلہ
پاکستان میں فضائی آلودگی اور اسموگ کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیشِ نظر حکومت نے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف بڑا قدم اٹھا لیا ہے۔
ڈی جی ماحولیات ڈاکٹر عمران حامد شیخ نے واضح اعلان کیا ہے کہ آج سے دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں کسی بھی صورت سڑکوں پر نہیں چل سکیں گی۔ انہوں نے ٹریفک پولیس کو فوری کریک ڈاؤن کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ بغیر فٹنس یا بغیر VICS سرٹیفکیٹ والی گاڑیوں کو فوری طور پر بند کر دیا جائے۔
دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں — ماحولیاتی تباہی کی اصل وجہ
ڈاکٹر عمران حامد شیخ نے کہا کہ ملک میں بڑھتی فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ یہی دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں ہیں۔
یہ گاڑیاں نہ صرف شہریوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ موسم کی تبدیلیوں اور اسموگ کے پھیلاؤ کا بنیادی ذریعہ بھی یہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان گاڑیوں سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں ہوا میں موجود آکسیجن کی مقدار کم کر دیتا ہے، جس سے سانس، دل اور آنکھوں کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ٹریفک پولیس کو فوری کارروائی کا حکم
ڈی جی ماحولیات کے مطابق ٹریفک پولیس کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ وہ آج ہی سے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی شروع کرے۔
شہریوں سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسی گاڑیوں کی نشاندہی کریں جو سڑکوں پر ماحولیاتی آلودگی پھیلا رہی ہیں۔
ڈاکٹر عمران نے کہا کہ اب کسی بھی گاڑی کو فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر سڑک پر آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تعمیراتی سائٹس پر بھی سخت احکامات
انہوں نے مزید کہا کہ شہر کی تمام سڑکوں اور تعمیراتی مقامات پر روزانہ دو بار پانی کا چھڑکاؤ لازمی ہوگا تاکہ فضاء میں اڑنے والی دھول کم کی جا سکے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگر کسی کنسٹرکشن سائٹ پر ماحولیاتی شرائط کی خلاف ورزی ہوئی تو فوری کارروائی ہوگی۔
ڈمپ مٹی، ریت اور ملبہ لے جانے والی گاڑیوں کو اگر بغیر کور کے پایا گیا تو وہ بھی دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی طرح بند کر دی جائیں گی۔
کوڑا جلانے والوں کے خلاف بھی زیرو ٹالرنس
ڈی جی ماحولیات نے کہا کہ کوڑا کرکٹ جلانے والوں کو اب کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ فضاء میں اضافی دھواں پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، ان کے خلاف مقدمات درج ہوں گے اور فوری گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔
ان کے مطابق فضائی آلودگی کے خلاف اب صرف باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات کیے جائیں گے۔
فصلوں کی باقیات جلانے پر بھی پابندی
ڈاکٹر عمران حامد شیخ نے کہا کہ فصلوں کی باقیات جلانے والوں کے خلاف بھی زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے گی۔
انہوں نے ایگری کلچر ٹیموں کو حکم دیا ہے کہ وہ فیلڈ میں جا کر ایسے تمام واقعات کی روک تھام کریں۔
ان کے مطابق فصلوں کے جلانے سے پیدا ہونے والا دھواں سموگ میں بڑا کردار ادا کرتا ہے، اور یہ عمل بھی دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی طرح فضاء کے لیے خطرناک ہے۔
شہریوں کے لیے حفاظتی ہدایات
ڈی جی ماحولیات نے اسکولوں کے طلبہ اور والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اسموگ کے دنوں میں ماسک کا استعمال لازمی کریں۔
انہوں نے کہا کہ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ طلبہ کو آگاہی فراہم کرے اور اسکولوں میں ماحولیاتی تعلیم پر زور دیا جائے۔
فضائی آلودگی کے خلاف عملی جنگ کا آغاز
ڈاکٹر عمران حامد شیخ نے کہا کہ فضائی آلودگی کے خلاف اب "زبانی جمع خرچ” کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
اب عملی جنگ شروع ہو گئی ہے، اور سب سے پہلے دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میونسپل اداروں کو روزانہ کی بنیاد پر کارروائی کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے تاکہ سڑکوں سے دھول، مٹی اور آلودگی کے تمام ذرائع ختم کیے جا سکیں۔
عوامی تعاون کی ضرورت
انہوں نے کہا کہ حکومت اکیلی یہ جنگ نہیں جیت سکتی، عوامی تعاون ضروری ہے۔
شہریوں کو چاہیے کہ وہ اپنی گاڑیوں کی دیکھ بھال کریں اور اگر ان کی گاڑیاں دھواں چھوڑ رہی ہیں تو فوری مرمت کروائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم سب اپنی ذمہ داری ادا کریں تو دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں خودبخود سڑکوں سے ختم ہو جائیں گی۔
ماحولیاتی ماہرین کا ردِعمل
ماحولیاتی ماہرین نے حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دیر سے سہی لیکن درست سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے۔
انہوں نے کہا کہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیاں پاکستان کے بڑے شہروں میں فضائی آلودگی کا سب سے اہم ذریعہ ہیں، اور ان کے خاتمے سے شہری صحت میں نمایاں بہتری آئے گی۔
ماہرین کے مطابق اگر اس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا تو اسموگ کے اثرات میں واضح کمی ممکن ہے۔
پنجاب میں اسموگ کی صورتحال سنگین، حکومت کے ہنگامی اقدامات
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت نے آخرکار فضائی آلودگی کے سب سے بڑے مجرم — یعنی دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں — کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔
اگر یہ مہم سنجیدگی سے جاری رہی تو آنے والے دنوں میں نہ صرف شہروں کی فضا صاف ہوگی بلکہ شہریوں کو بھی صحت مند زندگی میسر آ سکے گی۔