سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات رعایتی تھی، سہیل آفریدی کا واضح موقف — اڈیالہ ملاقات ناکام، صوبائی قیادت کا موقف یکساں رہا
پشاور (رئیس الاخبار) — نو منتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے کہا ہے کہ پشاور کے کور کمانڈر ان کے پاس مبارکبادی اور غیر رسمی گفتگو کے لیے آئے تھے، اور یہ کوئی سرکاری ملاقات نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا موقف ایک سا ہے — جو وہ اندر کہتے ہیں وہی باہر بھی کہتے ہیں — اور صوبائی حکومت کا ایجنڈا عوامی مینڈیٹ اور امن و استحکام پر مبنی ہے۔
یہ بیان اس وقت آیا جب سہیل آفریدی کی اڈیالہ جیل میں پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان سے ملاقات کے سلسلے میں ایک اور کوشش نیز اڈیالہ پر ہونے والی واقعاتی صورتحال کی خبریں سامنے آئیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ کی ملاقات کے انتظامات کے باوجود انہیں اور ان کے ساتھ آنے والے رہنماؤں کو اڈیالہ کے باہر روکا گیا اور وہ ملاقات کئے بغیر واپس روانہ ہوگئے — جس پر سیاسی حلقوں میں ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات کو ”غیر رسمی“ قرار
سہیل آفریدی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا: “کور کمانڈر پشاور مجھے مبارکباد دینے آئے تھے، یہ کوئی سرکاری ملاقات نہیں تھی۔ سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات میں گفتگو غیر رسمی نوعیت کی تھی اور ہمارا موقف ایک ہی ہے — جو ہم اندر کہتے ہیں، وہی باہر بھی کہتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہونے کے ناطے انہیں مختلف سیکیورٹی اداروں کے سربراہان کے ساتھ باقاعدہ اور غیر باقاعدہ نوعیت کی ملاقاتیں رہتی ہیں، جس میں انسپکٹر جنرل پولیس، چیف سیکریٹری اور دیگر سینیئر افسران شامل ہیں، اور اسی طرز پرسہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات بھی ہو سکتی ہیں تاکہ صوبائی اور سیکیورٹی امور پر تبادلۂ خیال ممکن ہو سکے۔
اڈیالہ میں عمران خان سے ملاقات کی کوشش ناکام — پی ٹی آئی کا مؤقف اور عدالت کا احکامات
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو پہلے ہی ہدایت دی تھی کہ عمران خان سے ہفتے میں دو بار ملاقاتوں کا شیڈول بحال کیا جائے اور ملاقاتوں کے لیے پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس عدالتی حکم کے باوجود سہیل آفریدی سمیت دیگر رہنماؤں کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ دینے کی اطلاعات نے تنازعہ پیدا کیا، اور پی ٹی آئی رہنماؤں نے جیل انتظامیہ پر سخت تنقید کی ہے کہ انہیں اپنے قائد تک رسائی نہیں دی جا رہی۔
پی ٹی آئی کے عہدیداروں نے بارہا دعویٰ کیا کہ جیل حکام جان بوجھ کر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، جب کہ صوبائی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ عدالتی احکامات کی پاسداری چاہتے ہیں اور ہر فورم پر اپنے مؤقف کی پیروی کریں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان اور ریاستی موقف — کیا سیاسی معاملے سیکیورٹی پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟
سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پشاور کور ہیڈکوارٹرز میں پریس کانفرنس کے دوران سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ ملک کی ریاست مضبوط ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سیاسی اختلافات سے قطع نظر جاری رہے گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ کون سا سیاسی نظریہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے خلاف ہے، یہ عوام کے سامنے ہے، اور ریاست کسی بھی ایسی قیادت کو برداشت نہیں کرے گی جو ریاست مخالف ہو۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ سیکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی آپریشنز قومی مفاد کے زمرے میں ہیں اور ان معاملات میں سیاسی اختلافات کو ترجیح نہیں دی جائے گی۔ ان کی گفتگو نے بعض حلقوں میں اس خدشے کو مزید تقویت دی کہ سیاسی کھینچا تانی بعض اوقات سیکیورٹی معاملات کے ساتھ جڑی صورتِ حال کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
صوبائی قیادت کا مطالبہ — فنڈز، وسائل اور این ایف سی اجلاس
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے میڈیا سے بات چیت کے دوران وفاقی وسائل، بلٹ پروف گاڑیوں اور این ایف سی (نیشنل فنانس کمیشن) کے بقایا جات کے حوالے سے سخت مطالبات بھی دہرائے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کو اس کے قانونی اور آئینی حصے کا حصہ دیا جائے اور صوبے کے تمام واجب فنڈز جلد جاری کیے جائیں۔ سہیل آفریدی نے صوبائی پولیس کے لیے اعلان کردہ گرانٹس اور نئے بطورِ ترجیح فنڈز کی فراہمی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پولیس کو جدید آلات، ساز و سامان اور مناسب اسلحہ فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ دہشت گردی کے خلاف مؤثر انداز میں جدوجہد کر سکیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ این ایف سی کا اجلاس جلد بلایا جائے اور صوبے کا 350 ارب روپے کا حصہ جاری کیا جائے، نیز انکشاف کیا کہ صوبے کے بقایا جات 2200 ارب روپے سے زائد ہیں — جسے انہوں نے وفاقی لاپرواہی اور ناانصافی قرار دیا۔
سیاسی تناظر: تبدیلیاں، بیانات اور آئندہ لائحہ عمل
سہیل آفریدی کی منتخب ہونے کے بعد خیبرپختونخوا کی قیادت میں تبدیلی نے سیاسی منظرنامہ مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ علی امین گنڈاپور کو اس ماہ کے آغاز میں وزیراعلیٰ کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا اور سہیل آفریدی کو منتخب کروایا گیا۔ اس پس منظر میں سیکیورٹی اور سیاسی حلقوں کے درمیان رابطے اور بیانات کو خاصی اہمیت دی جا رہی ہے۔
سہیل آفریدی نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ وہ روایتی انداز میں کام نہیں کرنا چاہتے اور عوام کو محسوس ہونا چاہیے کہ تبدیلی واقعی عمل میں آ رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ رٹہ سسٹم ختم کرنے، پوسٹنگ و ٹرانسفر پالیسی کو شفاف بنانے اور میرٹ کو نافذ کرنے جیسے اقدامات آئیں گے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے زور دیا کہ پولیس کسی بھی سیاسی سفارش کے تحت نہ تو کسی کو گرفتار کرے گا اور نہ ہی سیاسی انتقام کے طور پر ایف آئی آرز کا استعمال ہوگا۔
سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات عوامی تاثر اور سیاسی ماہرین کا تجزیہ
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صوبائی اور وفاقی سطح پر تعلقات کی نزاکت کی صورت حال میں ہر بیان اور سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات کا بھی سیاسی وزن ہوتا ہے۔ اڈیالہ ملاقات کے معاملے میں جہاں ایک طرف عدالتی احکامات اور جیل انتظامیہ کے اقدامات پر سوال اٹھتے ہیں، وہیں دوسری طرف ریاستی اداروں کی طرف سے جاری موقف نے یہ واضح کیا کہ سیکیورٹی معاملات ہر صورت مستحکم رکھے جائیں گے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو اگر بخوبی فنڈز اور وسائل فراہم کیے جائیں تو وہ امن و امان کی صورتِ حال بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اسی حوالے سے وزیراعلیٰ کے مطالبات کو سیاسی حلقوں میں سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے، خاص طور پر دفاع اور پولیس کے مربوط اقدامات کی ضرورت کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔
صورتحال اور آئندہ راہ (corps commander peshawar sohail afridi meeting)
فی الحال صورتحال یہ ہے کہ:
سہیل آفریدی کی کور کمانڈر پشاور سے ملاقات کو غیر رسمی قرار دیا اور اپنے موقف کی یکسانیت پر زور دیا۔
اڈیالہ ملاقات کی ناکامی نے سیاسی کشیدگی کو بڑھا دیا، اور پی ٹی آئی قیادت نے جیل انتظامیہ پر عدم تعاون کا الزام عائد کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف آپریشنز سیاسی اختلافات سے بالا تر رہیں گے۔
صوبائی حکومت نے وفاق سے فنڈز اور وسائل کی جلد فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔
آئندہ چند دنوں میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ عدالتی ہدایات پر کس طرح عمل درآمد ہوتا ہے، اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں کے شیڈول کی پابندی کیسے یقینی بنائی جاتی ہے، اور وفاقی و صوبائی سطح پر عوامی مفاد، سیکیورٹی اور قانون کی حکمرانی کو کیسے متوازن رکھا جاتا ہے۔ سیاسی اور سیکیورٹی فریقین کے بیانات پر عوامی نگرانی بھی بڑھ گئی ہے، اور ہر فریق پر عوامی اعتماد بحال رکھنے کی ذمہ داری ہے
کور کمانڈر وزیراعلی سیکرٹریٹ مبارک باد دینے آئے تھے ان سے کوئی آفیشل گفتگو نہیں ہوئی۔ ہمارا موقف وہی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کا، عمران خان کا موقف ہے۔ میں ایک صوبے کا چیف ایگزیٹو ہوں میرے آفس میں چیف سیکرٹری ہو کورکمانڈر یا دیگر سیکیورٹی اداروں کے افسران آئیں گے صوبائی معاملات… pic.twitter.com/nL66gVFECW
— PTI (@PTIofficial) October 28, 2025












Comments 1