سولر صارفین پر ٹیکس حکومت اور آئی ایم ایف میں نئی ٹیکس پالیسی پر غور
اسلام آباد: پاکستان میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران اور محصولات میں کمی کے بعد حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے ایک نئی مالی حکمتِ عملی پر غور شروع کر دیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت سولر صارفین پر ٹیکس سمیت متعدد نئے اقدامات متوقع ہیں، جن کا مقصد ریونیو بڑھانا اور مالی خسارہ کم کرنا ہے۔
پس منظر — سولر انرجی کا تیزی سے بڑھتا رجحان
گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں سولر توانائی کا استعمال تیزی سے بڑھا ہے۔ فی الحال ملک بھر میں گھروں، دفاتر اور کارخانوں پر نصب سولر پینلز تقریباً 6 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔
حکومتی تخمینوں کے مطابق آئندہ برسوں میں درآمدی پینلز کے ذریعے 25 سے 30 ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب حکومت سولر صارفین پر ٹیکس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے تاکہ بڑھتی ہوئی خود انحصاری کے باعث بجلی کے سرکاری گرڈ سے کم ہونے والے ریونیو کی تلافی کی جا سکے۔
آئی ایم ایف کا دباؤ اور ہنگامی ٹیکس اقدامات
ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے کھاد اور زرعی ادویات پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز مسترد ہونے کے بعد متبادل ذرائع سے آمدن بڑھانے کی سفارش کی ہے۔
اب حکومت نے اپنی توجہ سولر صارفین پر ٹیکس سمیت انٹرنیٹ، ٹیلی کام اور دیگر سروسز پر عائد کیے جانے والے ممکنہ ٹیکسز پر مرکوز کر لی ہے۔
ذرائع کے مطابق یہ اقدامات آئی ایم ایف کے دوسرے جائزہ رپورٹ کا حصہ ہوں گے۔ اس رپورٹ کو فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کے بعد جاری کیا جائے گا، جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی تیسری قسط فراہم کی جائے گی۔
مجوزہ ٹیکس تفصیلات
وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے تجویز دی ہے کہ اگر مالی سال کے وسط میں ریونیو ہدف سے کم رہ جائے تو ہنگامی بنیادوں پر سولر صارفین پر ٹیکس عائد کیا جا سکتا ہے۔
تجاویز کے مطابق:
درآمدی سولر پینلز پر جنرل سیلز ٹیکس (GST) 10 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کیا جا سکتا ہے۔
یہ نیا سولر صارفین پر ٹیکس جنوری 2026 سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔
انٹرنیٹ سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس 15 فیصد سے بڑھا کر 18 یا 20 فیصد کرنے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔
حکومت کی تشویش
حکومت کا مؤقف ہے کہ جیسے جیسے لوگ سولر انرجی کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، ویسے ویسے سرکاری گرڈ سسٹم پر انحصار کم ہوتا جا رہا ہے۔
اس کے نتیجے میں “کپیسیٹی پیمنٹس” یعنی بجلی گھروں کو ادا کی جانے والی مقررہ رقم میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رواں مالی سال میں صرف کپیسیٹی پیمنٹس کی مد میں 1.7 ٹریلین روپے کی ادائیگی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
اسی لیے حکام سمجھتے ہیں کہ سولر صارفین پر ٹیکس عائد کرنا مالیاتی نظام کو متوازن رکھنے کے لیے ضروری بنتا جا رہا ہے۔
ماہرین کی رائے
توانائی کے ماہرین کے مطابق، اگر حکومت سولر صارفین پر ٹیکس عائد کرتی ہے تو یہ نہ صرف ماحول دوست توانائی کے فروغ کو نقصان پہنچائے گا بلکہ عام صارفین کے اعتماد کو بھی متزلزل کرے گا۔
پاکستان میں سولر انرجی اب متوسط طبقے کے لیے واحد پائیدار متبادل بن چکی ہے۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر فرزانہ ملک کا کہنا ہے:
“دنیا بھر میں حکومتیں سولر انرجی پر سبسڈی دے رہی ہیں، جبکہ پاکستان میں اس پر ٹیکس لگانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ پالیسی الٹی سمت میں جا رہی ہے۔”
سولر انرجی صارفین کی تشویش
سوشل میڈیا پر بھی سولر صارفین پر ٹیکس کے اعلان کی خبروں پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
کئی صارفین کا کہنا ہے کہ حکومت گرین انرجی کے فروغ کے بجائے عوام کو سزا دے رہی ہے۔
ایک صارف نے لکھا:
“ہم نے سولر پینلز بجلی کے بلوں سے بچنے کے لیے لگائے تھے، اب اگر سولر صارفین پر ٹیکس لگا تو سسٹم دوبارہ مہنگا ہو جائے گا۔”
کاروباری برادری کا ردعمل
درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ اگر سولر پینلز پر جی ایس ٹی بڑھا کر 18 فیصد کر دیا گیا تو اس سے سولر مارکیٹ متاثر ہوگی۔
اس وقت ملک میں بیشتر پینلز چین، متحدہ عرب امارات اور ترکی سے درآمد کیے جاتے ہیں، اور ہر اضافی ٹیکس صارفین کے لیے قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا۔
ایک درآمد کنندہ کے مطابق:
“سولر صارفین پر ٹیکس عائد کرنے سے گھریلو منصوبے 15 سے 20 فیصد تک مہنگے ہو جائیں گے۔ حکومت کو پائیدار حل تلاش کرنا چاہیے، نہ کہ بجلی بچانے والوں پر بوجھ ڈالنا چاہیے۔”
متبادل تجاویز
معاشی ماہرین نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ سولر صارفین پر ٹیکس عائد کرنے کے بجائے توانائی کے بڑے صارفین (انڈسٹریز اور کارپوریٹ سیکٹر) سے ٹیکس وصولی بہتر بنائے۔
ماہرین کے مطابق سولر انرجی ایک سرمایہ کاری ہے، نہ کہ لگژری۔ اس پر ٹیکس عائد کرنے سے گرین انرجی کی ترقی رک سکتی ہے۔
آئندہ کے امکانات
ذرائع کے مطابق، حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان جاری مذاکرات میں سولر صارفین پر ٹیکس کو “ہنگامی اقدام” کے طور پر رکھا گیا ہے۔
یہ تب ہی نافذ ہوگا اگر مالی سال 2025-26 کے دوران محصولات ہدف سے کم رہیں۔
حکومت نے باضابطہ اعلان تو نہیں کیا، لیکن اشارہ دیا ہے کہ اگر ریونیو میں کمی برقرار رہی تو یہ اقدام جنوری 2026 میں نافذ کیا جا سکتا ہے۔
توانائی بحران کا حل یا نیا مسئلہ؟ پاکستان میں سولر پینلز کا استعمال
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سولر صارفین پر ٹیکس کی تجویز عوامی سطح پر غیر مقبول ثابت ہو رہی ہے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت کو بجائے نئے ٹیکس لگانے کے، بجلی کے نظام میں شفافیت اور وصولی بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
Comments 1