سونے کی قیمت میں اضافہ: عالمی و مقامی مارکیٹ نئی بلند سطح پر پہنچ گئی
عالمی اور مقامی سطح پر سونے کی قیمتوں میں تاریخی اضافہ: معیشت، سرمایہ کاری اور عوامی ردعمل
دنیا بھر میں اقتصادی اتار چڑھاؤ، جغرافیائی کشیدگی اور مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی نے سونے کو ایک بار پھر محفوظ سرمایہ کاری کے طور پر نمایاں کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالمی بلین مارکیٹ اور پاکستان میں سونے کی قیمتوں میں ایک بار پھر غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس نے تاریخ کی نئی بلند ترین سطحوں کو چھو لیا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں غیر معمولی اضافہ
رپورٹس کے مطابق بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت میں 49 ڈالر کا بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جس کے بعد قیمت 3,692 امریکی ڈالر فی اونس کی نئی بلند سطح پر پہنچ گئی۔ یہ نہ صرف رواں سال بلکہ گزشتہ کئی دہائیوں میں سونے کی سب سے بڑی یکدم بڑھوتری میں سے ایک ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اضافے کی اہم وجوہات میں امریکہ اور یورپ میں افراطِ زر کی بلند شرح، سودی پالیسیوں میں غیر یقینی صورتحال، اور مشرق وسطیٰ و مشرقی یورپ میں جاری کشیدگی شامل ہیں۔ سرمایہ کار ایک بار پھر سونے کو بطور "محفوظ پناہ گاہ” (Safe Haven) اختیار کر رہے ہیں۔
پاکستان میں سونے کی قیمتیں بلند ترین سطح پر
عالمی منڈی میں اضافے کے اثرات پاکستان کی مقامی مارکیٹ پر بھی فوری نظر آئے۔ ملک بھر میں فی تولہ سونے کی قیمت 4,700 روپے کے اضافے کے ساتھ 3 لاکھ 91 ہزار روپے کی نئی تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اسی طرح فی دس گرام سونے کی قیمت 4,030 روپے بڑھ کر 3 لاکھ 35 ہزار 219 روپے ہو گئی۔
یہ قیمتیں پاکستانی عوام کی قوتِ خرید اور معیشت کے دیگر شعبوں پر گہرے اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
سونے کی قیمت میں اضافے کی وجوہات
ماہرین کے مطابق سونے کی قیمت میں اضافے کے پیچھے درج ذیل عالمی اور مقامی عوامل کارفرما ہیں:
ڈالر کی قدر میں کمی: عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں معمولی گراوٹ سے سونا نسبتاً سستا محسوس ہوتا ہے، جس سے اس کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔
جغرافیائی کشیدگیاں: یوکرین جنگ، تائیوان کا تنازع، اور مشرق وسطیٰ میں غیر یقینی حالات سرمایہ کاروں کو سونے کی طرف مائل کرتے ہیں۔
افراطِ زر کا دباؤ: مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح، خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں، سونے کو ایک پائیدار سرمایہ کاری کے طور پر سامنے لاتی ہے۔
پاکستانی روپے کی کمزوری: ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی سونے کی قیمتوں میں مقامی سطح پر اضافے کا سبب بنتی ہے۔
ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین اور مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق سونے کی قیمتوں میں یہ اضافہ وقتی نہیں بلکہ ایک نئے معاشی دور کی شروعات ہو سکتی ہے۔ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر حسن رضوی کا کہنا ہے:
"ہم عالمی معیشت کے ایک عبوری دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں روایتی مالیاتی نظام دباؤ میں ہے۔ سونا اس وقت دنیا بھر میں ‘ریئل ویلیو’ کا نمائندہ بن چکا ہے۔”
اسی طرح، مقامی گولڈ مارکیٹ کے سینئر تاجر محمد ارشد کے مطابق:
"سونے کی اس قدر بلند قیمتیں پاکستان میں شادی بیاہ، زیورات کی خریداری، اور کاروباری طبقے کی سرمایہ کاری پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ یہ ایک چیلنجنگ صورتحال ہے۔”
عوامی ردعمل
عوامی سطح پر سونے کی قیمت میں اس بے پناہ اضافے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر وہ خاندان جو شادی بیاہ کی تیاریوں میں مصروف ہیں، انہیں مالی دباو کا سامنا ہے۔ لاہور کی رہائشی فوزیہ بانو کا کہنا تھا:
"ہم نے بیٹی کی شادی کے لیے کچھ سونا خریدنا تھا، لیکن اب لگتا ہے یہ ہماری پہنچ سے باہر ہو گیا ہے۔”
سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے اس معاملے پر سخت ردعمل دیا ہے۔ "سونا غریب کا خواب بن چکا ہے” جیسے جملے عام ہو گئے ہیں۔
سرمایہ کاروں کے لیے سنہری موقع یا خطرہ؟
جہاں ایک طرف عوام کو سونے کی بلند قیمتوں سے مشکلات کا سامنا ہے، وہیں سرمایہ کار طبقے کے لیے یہ نفع بخش موقع بن کر سامنے آیا ہے۔ کئی افراد نے پچھلے سالوں میں خریدے گئے سونے کو فروخت کر کے اچھا منافع کمایا ہے۔
تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ سطح پر سونے کی خریداری میں احتیاط برتنی چاہیے، کیونکہ مارکیٹ کسی بھی وقت درستگی (correction) کا شکار ہو سکتی ہے۔
مستقبل کی پیشگوئیاں
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ عالمی صورتحال برقرار رہی، تو آئندہ چند ماہ میں سونے کی قیمت 4,000 ڈالر فی اونس اور پاکستان میں فی تولہ 4 لاکھ روپے تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم، اگر عالمی معیشت میں بہتری آتی ہے یا ڈالر کی قدر میں استحکام آتا ہے، تو سونے کی قیمت میں قدرے کمی بھی ممکن ہے۔
حکومت کی پالیسی اور ریگولیشن
پاکستان میں سونے کی درآمد، ذخیرہ اندوزی، اور اسمگلنگ جیسے مسائل بھی سونے کی قیمت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں حکومت کو چاہیے کہ:
سونے کی درآمد پر بہتر کنٹرول رکھے۔
ذخیرہ اندوزی کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
عوام کو سرمایہ کاری کے متبادل ذرائع فراہم کرے، جیسے کہ بانڈز اور اسٹاک مارکیٹ۔
غریب اور متوسط طبقے پر اثرات
سونے کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا سب سے زیادہ اثر غریب اور متوسط طبقے پر پڑتا ہے۔ نہ صرف شادیوں کے اخراجات بڑھتے ہیں، بلکہ زیورات کی خریداری کا رجحان بھی متاثر ہوتا ہے، جس سے گولڈ اسمیتھ اور جیولری کی صنعت کو نقصان پہنچتا ہے۔
سونے کی قیمتوں میں موجودہ اضافہ ایک عالمی معاشی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، جس کے اثرات مقامی سطح پر براہ راست محسوس کیے جا رہے ہیں۔ عوام، سرمایہ کار، حکومت اور کاروباری طبقہ سب اس صورتحال سے کسی نہ کسی انداز میں متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسے وقت میں سونے کی قیمتوں کو سمجھداری سے مانیٹر کرنا اور مستقبل کے لیے حکمت عملی تیار کرنا نہایت ضروری ہے
