سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی سماعت؛ ججز اور وکلا کے درمیان سخت سوالات
اسلام آباد میں آج ایک اہم مقدمے کی سماعت ہوئی جس نے کاروباری برادری، ٹیکس ماہرین اور عام عوام سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ یہ مقدمہ تھا سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس، جس کی سماعت کے دوران ججز اور وکلا کے درمیان سخت سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ سپر ٹیکس، جسے چند سال قبل متعارف کرایا گیا تھا، پاکستان کی مالی پالیسی اور معیشت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، مگر اس پر آئینی اور قانونی اعتراضات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کی اہمیت
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس اس لیے اہم ہے کیونکہ یہ براہ راست پاکستان کے کاروباری ماحول اور سرمایہ کاری پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ٹیکس پالیسی کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے اور اگر اس میں تفریق یا ابہام ہو تو سرمایہ کار مایوس ہو جاتے ہیں۔ اس مقدمے میں بنیادی سوال یہی ہے کہ آخر حکومت نے ٹیکس دہندگان میں تفریق کیوں رکھی اور کیا یہ آئین کے مطابق ہے یا نہیں۔
ایف بی آر کا مؤقف
سماعت کے دوران ایف بی آر کے وکیل نے وضاحت کی کہ سپر ٹیکس صرف ان اداروں پر لاگو کیا گیا ہے جن کی آمدن 300 ملین روپے سے زائد ہے۔ ان کے مطابق یہ ٹیکس 15 منتخب شعبوں پر نافذ کیا گیا ہے اور اب تک کسی بھی کمپنی نے مالی استطاعت نہ ہونے کا جواز پیش نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سندھ ہائیکورٹ نے سپر ٹیکس کو کالعدم قرار دیتے وقت سابقہ عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر فیصلہ دیا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس میں حکومت نے یہ وضاحت دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ ٹیکس معیشت کے بڑے شعبوں پر لاگو ہوا ہے تاکہ قومی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔
ججز کے سخت سوالات
سماعت کے دوران ججز نے کئی سخت سوالات اٹھائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ پارلیمان نے ٹیکس دہندگان میں تفریق کیوں رکھی؟ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس کا بنیادی مقصد قومی خزانے کو مضبوط کرنا ہوتا ہے لیکن اگر اس عمل میں سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی ہو تو وہ اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فیصلوں میں ٹیکس کی تفریق کی وجوہات واضح نہیں کی گئیں اور یہ خلا پر کرنا ضروری ہے۔
اسی طرح جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کسی بھی ٹیکس کا اصل بوجھ بالآخر عام عوام پر پڑتا ہے۔ چاہے وہ سیمنٹ کی بوری ہو یا ایل این جی کا بوجھ، اس کا اثر صارفین کو ہی سہنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر عوام کے لیے سہولتیں پیدا نہیں کی جاتیں تو کاروبار کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔
وکلا کے دلائل
وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ سندھ ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلے سناتے وقت کوئی ڈیٹا طلب نہیں کیا۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اصل مقدمہ یہ ہے کہ آخر ٹیکس دہندگان میں فرق کیوں رکھا گیا اور اس سوال کا تسلی بخش جواب حکومت کو دینا ہوگا۔
یہ بحث واضح کرتی ہے کہ سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس صرف ٹیکس کی قانونی حیثیت کا معاملہ نہیں بلکہ یہ پورے نظامِ عدل، معیشت اور پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے والا کیس ہے۔
سپر ٹیکس کی تعریف اور پس منظر
سپر ٹیکس ایک ایسا ٹیکس ہے جو عام انکم ٹیکس کے علاوہ لگایا گیا تھا۔ اس کا مقصد قومی خزانے میں اضافی آمدن پیدا کرنا تھا تاکہ حکومت اپنے اخراجات پورے کر سکے۔ تاہم اس ٹیکس کے حوالے سے شکوک و شبہات موجود ہیں کیونکہ اسے منتخب شعبوں پر لاگو کیا گیا اور چھوٹے کاروبار یا عام شہری اس سے براہ راست متاثر نہیں ہوئے۔ لیکن بڑے اداروں کے مطابق یہ ٹیکس ان کے کاروباری اخراجات میں اضافہ کرتا ہے جس کا اثر بالآخر صارف پر منتقل ہوتا ہے۔
معیشت پر اثرات
ماہرین کے مطابق سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس کے فیصلے سے پاکستان کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر سپر ٹیکس کو برقرار رکھا گیا تو بڑی کمپنیوں کے اخراجات میں اضافہ ہوگا جس سے مہنگائی کا دباؤ مزید بڑھے گا۔ دوسری جانب اگر یہ ٹیکس کالعدم ہو گیا تو حکومت کے لیے اپنے بجٹ خسارے کو پورا کرنا مشکل ہو جائے گا۔
عوام پر اثرات
اگرچہ سپر ٹیکس براہ راست عوام پر عائد نہیں کیا گیا لیکن ججز نے درست نشاندہی کی کہ اس کا بوجھ بالآخر عوام پر ہی منتقل ہوتا ہے۔ صنعتکار جب اضافی ٹیکس ادا کرتے ہیں تو وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح ایک عام آدمی، جو پہلے ہی مہنگائی سے تنگ ہے، مزید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔
آئینی اور قانونی پہلو
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس آئینی اعتبار سے بھی نہایت اہم ہے۔ آئین کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں سلوک ملنا چاہیے اور کسی خاص طبقے پر اضافی بوجھ ڈالنا غیر منصفانہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت بار بار پوچھ رہی ہے کہ آخر ٹیکس دہندگان میں تفریق کیوں کی گئی؟
مستقبل کی سمت
یہ مقدمہ آئندہ مالی پالیسیوں کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرے گا۔ اگر سپریم کورٹ یہ قرار دیتی ہے کہ سپر ٹیکس قانونی ہے تو حکومت آئندہ بھی اس طرح کے اضافی ٹیکس عائد کر سکتی ہے۔ تاہم اگر عدالت اسے کالعدم قرار دیتی ہے تو حکومت کو اپنے بجٹ خسارے پورا کرنے کے لیے نئے ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم: سپریم کورٹ فل کورٹ تنازع اور جسٹس منصور علی شاہ کا کھلا خط
سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس محض ایک عدالتی مقدمہ نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت اور عوامی زندگی سے جڑا ہوا ایک بڑا سوال ہے۔ اس کیس میں ہونے والی بحث سے یہ بات واضح ہے کہ ٹیکس دہندگان میں تفریق اور پالیسی میں ابہام نے پورے نظام کو غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ اب سب کی نظریں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر مرکوز ہیں جو مستقبل میں پاکستان کی مالی پالیسیوں کی سمت متعین کرے گا۔