قومی اسمبلی میں طلال چوہدری کا بیان: شیطان بھی مقبول ہے مگر فرشتہ نہیں بن سکا
طلال چوہدری کا بیان: مقبولیت بے گناہی کی دلیل نہیں
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا بیان قومی اسمبلی میں ایک جذباتی اور سخت لہجے میں سامنے آیا، جس میں انہوں نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوامی مقبولیت کو بے گناہی کی سند نہیں بنایا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ "شیطان بھی بہت مقبول ہے مگر وہ فرشتہ نہیں بن سکا”، جو ان کے بیان کا مرکزی نکتہ تھا۔
مقبولیت اور بے گناہی کا فرق
طلال چوہدری کا بیان اس خیال کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی شخصیت مقبول ہو تو وہ لازمی طور پر بے گناہ بھی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بعض سیاستدان عوامی ہمدردی سمیٹنے کے لیے خود کو نشانہ ظاہر کرتے ہیں، مگر ان کے ماضی کے اعمال اور فیصلے ان کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔
دہشتگردی پر دوہرا معیار؟
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو لا کر کون بٹھاتا رہا؟ کیا اپوزیشن واقعی ریاست کے ساتھ ہے یا ان عناصر کے ساتھ جنہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا؟ طلال چوہدری کا بیان یہاں ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ ماضی میں بعض قوتوں نے شدت پسندوں کے لیے نرم گوشہ رکھا، جس کا خمیازہ آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان پر واضح مؤقف
طلال چوہدری نے کہا کہ فی الحال کوئی نیا آپریشن نہیں ہو رہا، لیکن نیشنل ایکشن پلان کے تحت جو کارروائیاں جاری ہیں، انہیں کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا، "یہ کام کسی کے باپ کے بس کی بات نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان کو روکے۔” یہ جملہ ان کے سخت موقف کی عکاسی کرتا ہے۔
سی ٹی ڈی کی عدم موجودگی پر تنقید
وزیر مملکت نے ایک مخصوص صوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جس صوبے کو 700 ارب روپے این ایف سی ایوارڈ کے تحت ملے، وہاں سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ) تک نہیں بنائی گئی۔ طلال چوہدری کا بیان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض صوبے اپنی سیکیورٹی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے ہیں۔
زیارات پر پابندی: سیکیورٹی اولین ترجیح
زائرین کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث کچھ سیکیورٹی مسائل سامنے آئے ہیں، جن کی وجہ سے زمینی راستے سے زیارات پر عارضی پابندی لگائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے پر ایران سے بات چیت کر رہی ہے تاکہ زائرین کو محفوظ سفری سہولت مہیا کی جا سکے۔

سیاسی مفادات بمقابلہ قومی سلامتی
طلال چوہدری کا بیان اس بات پر زور دیتا ہے کہ سیاسی مفادات کو قومی سلامتی پر ترجیح دینا خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض سیاسی جماعتوں پر دہشتگرد حملے نہیں ہوتے، کیونکہ وہ ان عناصر سے خفیہ طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ یہ الزام ایک سنگین دعویٰ ہے، جسے قومی سلامتی کے اداروں کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
طلال چوہدری کا بیان ایک وارننگ یا پالیسی وضاحت؟
آخر میں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ طلال چوہدری کا بیان صرف ایک سیاسی تقریر نہیں بلکہ ایک قومی بیانیہ ہے۔ انہوں نے واضح کر دیا کہ ریاست، نیشنل ایکشن پلان کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہے گی اور جو عناصر دہشتگردوں کو سہولت دیتے رہے، ان کا احتساب ناگزیر ہے۔
میڈیا اور عوامی رائے پر اثرات
طلال چوہدری کا بیان نہ صرف ایوان کے اندر بلکہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی موضوع بحث بنا رہا ہے۔ عوامی رائے دو حصوں میں تقسیم دکھائی دی؛ ایک طبقہ ان کے بیان کو حقیقت پسندانہ قرار دے رہا ہے جبکہ دوسرا اسے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوشش سمجھ رہا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اس قسم کے بیانات وقتی سیاسی فائدے سے بڑھ کر عوامی شعور اور ریاستی بیانیے پر بھی گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔