تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی: صحت مند معاشرے کی جانب ایک اہم قدم
حکومت سندھ نے ایک نہایت اہم اور تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے صوبے بھر کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں سگریٹ، ویپ اور دیگر نکوٹین مصنوعات پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ فیصلہ صرف ایک نوٹیفکیشن نہیں بلکہ مستقبل کی نسلوں کو محفوظ اور صحت مند بنانے کی سمت ایک بڑی پیش رفت ہے۔ تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی عائد کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت تعلیم کے ماحول کو منشیات اور مضر صحت عادات سے پاک کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔
نوٹیفکیشن کا اجرا
وزیر تعلیم سندھ سردار شاہ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سیکریٹری تعلیم نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ اس نوٹیفکیشن میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سگریٹ، ویپ، نکوٹین پاؤچز اور تمباکو سے بنی تمام مصنوعات نہ صرف اسکولوں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی ممنوع ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی صرف علامتی نہیں بلکہ عملی شکل اختیار کر گئی ہے۔
زیرو ٹالرنس پالیسی
نوٹیفکیشن میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس پابندی کی خلاف ورزی پر سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ منشیات اور نکوٹین مصنوعات کے استعمال کے حوالے سے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی گئی ہے تاکہ کسی بھی ادارے یا فرد کو اس حوالے سے چھوٹ نہ ملے۔ یہ پالیسی اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی محض کاغذی کارروائی نہیں بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد بھی کروایا جائے گا۔
طلبہ کی صحت پر مثبت اثرات
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ تمباکو اور نکوٹین مصنوعات کا استعمال کم عمر طلبہ کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ یہ عادات نہ صرف جسمانی صحت بلکہ ذہنی نشوونما کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی طلبہ کی صحت کے لیے ایک مثبت اور دیرپا اقدام ہے۔ یہ اقدام مستقبل کی نسلوں کو نشے کی لت سے بچانے اور ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری
یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ صرف حکومت کے اقدامات کافی نہیں ہیں۔ والدین اور اساتذہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فیصلے کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔ طلبہ کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی ان کی اپنی بھلائی کے لیے ہے، تاکہ وہ ایک صاف اور صحت مند ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔
ماضی کے تجربات اور موجودہ ضرورت
پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں پہلے بھی مختلف سطحوں پر تمباکو نوشی کے خلاف اقدامات کیے گئے ہیں، مگر ان پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج نہیں ملے۔ تاہم، سندھ حکومت کا یہ فیصلہ موجودہ حالات میں اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ آج کے نوجوان ویپ اور نکوٹین پاؤچز جیسی نئی مصنوعات کی جانب تیزی سے راغب ہو رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی کے ساتھ ان نئی شکلوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو کہ ایک دور اندیش فیصلہ ہے۔
معاشرتی پہلو
یہ پابندی معاشرتی سطح پر بھی بڑے مثبت اثرات مرتب کرے گی۔ جب طلبہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ اور نکوٹین مصنوعات سے دور رہیں گے تو وہ معاشرے میں بھی اس رویے کو اپنائیں گے۔ آہستہ آہستہ یہ کلچر پروان چڑھے گا کہ سگریٹ نوشی اور نکوٹین کا استعمال معیوب سمجھا جائے۔ یوں تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی ایک بڑے سماجی انقلاب کی بنیاد بن سکتی ہے۔
نفاذ میں مشکلات
کسی بھی پالیسی یا قانون کی طرح اس فیصلے پر عملدرآمد میں بھی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ طلبہ اکثر تعلیمی اداروں کے باہر سے سگریٹ یا ویپ خرید لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں کے اطراف میں بھی نگرانی سخت کرے تاکہ تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی مؤثر ثابت ہو سکے۔
مستقبل کے لیے حکمت عملی
اگر یہ پالیسی کامیابی سے نافذ ہو گئی تو دیگر صوبے بھی اس کی تقلید کر سکتے ہیں۔ پاکستان بھر میں یکساں قانون بنانے کی ضرورت ہے تاکہ صرف سندھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی لگائی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ آگاہی مہمات چلانا بھی ضروری ہے تاکہ طلبہ اور عوام یہ سمجھ سکیں کہ یہ قدم ان کی صحت اور مستقبل کے لیے کتنا اہم ہے۔
عوامی صحت کی بڑی پیش رفت پارکس اور عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد
مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ حکومت کا فیصلہ درست وقت پر درست اقدام ہے۔ تعلیمی اداروں میں سگریٹ پر پابندی لگانا نہ صرف طلبہ کو نشے کی لعنت سے بچانے کا ذریعہ ہے بلکہ یہ پورے معاشرے کو ایک مثبت سمت دینے کی کوشش بھی ہے۔ اگر اس فیصلے پر سختی سے عملدرآمد کیا گیا تو آنے والے برسوں میں اس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔
اب یہ ذمہ داری والدین، اساتذہ اور معاشرے کے ہر فرد پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فیصلے کو کامیاب بنانے میں حکومت کا ساتھ دیں۔ کیونکہ صحت مند نسل ہی ایک ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کی ضمانت ہے۔
