ٹرمپ نے بھارت کو 24 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دی، مزید ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو سخت تجارتی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارت نے اپنی پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو آئندہ 24 گھنٹوں میں اس پر مزید بھاری ٹیرف عائد کر دیے جائیں گے۔ ٹرمپ نے بھارت کو 24 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دی جو دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان ایک نئی تجارتی کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے۔
سی این بی سی کو انٹرویو: سخت لہجہ اختیار
ٹرمپ نے یہ بیان امریکی نشریاتی ادارے CNBC کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں دیا۔ ان کا کہنا تھا:
"ہم پہلے ہی بھارت پر 25 فیصد ٹیرف لگا چکے ہیں، لیکن اب ہمیں اس میں مزید نمایاں اضافہ کرنا ہوگا، جس کا فیصلہ آئندہ 24 گھنٹوں میں کیا جائے گا۔”
یہ بیان ایک واضح اشارہ ہے کہ امریکہ بھارت پر تجارتی دباؤ بڑھانے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
امریکہ میں ادویات کی قیمتیں بڑھنے کا خدشہ
صدر ٹرمپ نے مزید خبردار کیا کہ اگر بھارت پر مزید اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ ایک سال کے دوران امریکہ میں درآمد ہونے والی ادویات کی قیمتوں میں 150 سے 250 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بھارت سے درآمد شدہ ادویات پر انحصار کم کرنا ضروری ہو چکا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ سخت فیصلے لینے پر مجبور ہے۔
ٹیرف کا ممکنہ اثر: بھارت کی برآمدی صنعت نشانے پر
اگر ٹرمپ نے بھارت کو 24 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دی اور اس کے بعد نئے ٹیرف لگائے گئے تو سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبے یہ ہوں گے:
- ٹیکسٹائل انڈسٹری
- فارماسیوٹیکل (ادویات) انڈسٹری
- آٹو پارٹس اور آٹو موبائل سیکٹر
بھارت کی یہ صنعتیں امریکہ کو بڑی مقدار میں مصنوعات برآمد کرتی ہیں، اور اگر ٹیرف بڑھا دیے گئے تو ان کی عالمی مسابقت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
سیاسی مقاصد یا سفارتی دباؤ؟
معاشی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ یہ اقدامات صرف تجارتی نہیں بلکہ سیاسی دباؤ ڈالنے کی ایک چال ہو سکتے ہیں۔ بنیادی مقصد بھارت کو روس سے تیل کی درآمد محدود کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
بھارت، جو کہ روس سے سستے داموں خام تیل خرید رہا ہے، امریکہ کی ناراضگی کا شکار ہے کیونکہ یہ بالواسطہ طور پر روس کی معیشت کو سہارا دے رہا ہے، جو کہ یوکرین جنگ کے سبب عالمی تنقید کی زد میں ہے۔

بھارت کا مؤقف: خودمختار فیصلے ہماری پالیسی کا حصہ ہیں
بھارتی وزارتِ خارجہ نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ:
"ہم اپنی قومی ضروریات کے مطابق آزادانہ فیصلے کرتے ہیں، اور کسی بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کرتے۔”
بھارت نے روس سے تیل کی خریداری پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اپنے عوام کی ضروریات اور معیشت کے مفاد کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔
Truth Social پر ٹرمپ کی پوسٹ: بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا
صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم Truth Social پر بھی بھارت پر تنقید کرتے ہوئے کہا:
"بھارت نہ صرف روس سے سستا پیٹرول خرید رہا ہے بلکہ اسے دیگر ممالک کو مہنگے داموں فروخت بھی کر رہا ہے، جو ایک بددیانتی پر مبنی معاشی رویہ ہے۔”
انہوں نے الزام لگایا کہ بھارت دراصل روس کی بالواسطہ مدد کر رہا ہے، اور یہ رویہ یوکرین جنگ کے تناظر میں ناقابلِ قبول ہے۔
برکس اتحاد پر شدید تنقید
ٹرمپ نے BRICS (برازیل، روس، انڈیا، چین، ساؤتھ افریقہ) میں بھارت کے کردار پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا جھکاؤ روس اور چین کی طرف بڑھ رہا ہے، جو امریکہ کے عالمی مفادات کے خلاف ہے۔
عالمی منڈی کی نظریں اس فیصلے پر جمی ہیں
اس وقت دنیا بھر کی مالیاتی منڈیوں، سرمایہ کاروں، اور تجارتی اداروں کی نظریں اس ممکنہ فیصلے پر جمی ہوئی ہیں کہ آیا امریکہ واقعی بھارت پر مزید ٹیرف عائد کرے گا یا نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو صرف بھارت نہیں بلکہ دیگر برآمدی ممالک بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
نتیجہ: تجارتی کشیدگی یا سفارتی حل؟
اگرچہ ٹرمپ نے بھارت کو 24 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن دی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دونوں ممالک اس تنازع کو سفارتی سطح پر حل کریں گے یا یہ کشیدگی تجارتی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی؟
.امریکہ اور بھارت دونوں کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، اور ایسے فیصلے عالمی معاشی استحکام کو بھی متاثر کر سکتے ہیں