ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ: ایران کی جوہری طاقت مکمل طور پر تباہ، مشرق وسطیٰ کے ممالک کو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی تلقین
واشنگٹن : سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر جاری بیان میں ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام عرب اور خلیجی ممالک کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرتے ہوئے معاہدات ابراہیمی (Abraham Accords) کا حصہ بننا چاہیے تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا، "ہم نے ایران کی جوہری طاقت کو پوری طرح تباہ کر دیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عرب دنیا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو مکمل طور پر بحال کرے اور معاہدات ابراہیمی کو توسیع دے۔”
ٹرمپ کی اس دعویٰ پر دنیا بھر میں سیاسی و سفارتی حلقوں میں بحث چھڑ گئی ہے، خاص طور پر اس لیے کیونکہ انہوں نے اس "جوہری طاقت کی تباہی” کے کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔ ایران کی حکومت کی جانب سے تاحال اس دعوے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
معاہدات ابراہیمی کیا ہیں؟
معاہدات ابراہیمی 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت کے دوران متعارف کروائے گئے تھے۔ ان کا مقصد اسرائیل اور عرب دنیا کے مابین تعلقات کو معمول پر لانا تھا۔ سب سے پہلے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بعد ازاں مراکش اور سوڈان نے بھی ان معاہدات میں شمولیت اختیار کی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ان معاہدات کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دیا، جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں بظاہر کمی آئی۔ تاہم فلسطینی قیادت نے ان معاہدات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انہیں "مسئلہ فلسطین سے انحراف” قرار دیا۔
ایران کی جوہری طاقت: حقیقت یا دعویٰ؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ترین بیان میں ایران کی جوہری طاقت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، مگر نہ تو کسی امریکی ادارے کی جانب سے اس کی تصدیق ہوئی ہے، اور نہ ہی کوئی بین الاقوامی جوہری ادارہ اس بات کی توثیق کرتا نظر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کا جوہری ادارہ (IAEA) ایران کے جوہری پروگرام کی باقاعدہ نگرانی کرتا رہا ہے، اور اس کی تازہ ترین رپورٹس میں ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ ایران نے جوہری صلاحیت مکمل طور پر کھو دی ہو۔
واضح رہے کہ 2015 میں امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری معاہدہ (JCPOA) طے پایا تھا، جس سے ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیار کی۔ اس اقدام کے بعد ایران نے یورینیئم کی افزودگی کا عمل دوبارہ شروع کیا، جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
مشرق وسطیٰ میں امن کی خواہش یا سیاسی چال؟
تجزیہ کاروں کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ حالیہ بیان محض ایک سیاسی چال بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ وہ آئندہ امریکی صدارتی انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ پھر خود کو مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے والے عالمی رہنما کے طور پر پیش کریں۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کی ٹیم دوبارہ معاہدات ابراہیمی کو وسعت دینے پر کام کر رہی ہے، اور ممکنہ طور پر سعودی عرب، قطر اور دیگر ممالک کو اس عمل میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم یہ عمل نہایت پیچیدہ ہے کیونکہ ان ممالک کی داخلی اور خارجی پالیسیز میں فلسطین کا مسئلہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
اسرائیل کے لیے فائدہ یا نیا تنازع؟
ٹرمپ کے اس بیان سے اسرائیل کے لیے بظاہر سفارتی فائدہ ممکن ہے، کیونکہ اگر مزید عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات قائم کرتے ہیں تو خطے میں اسرائیل کی حیثیت مضبوط ہوگی۔ تاہم، فلسطین کے حامی ممالک میں اس عمل سے بے چینی اور غصہ بھی بڑھ سکتا ہے، جو خطے میں مزید کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایران کو دیوار سے لگانے کی پالیسی سے بھی مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن متاثر ہو سکتا ہے۔ ایران کے قریبی اتحادی جیسے حزب اللہ، حوثی ملیشیا اور دیگر گروہ اس اقدام کو امریکی-اسرائیلی اتحاد کا حصہ سمجھ کر سخت ردعمل دے سکتے ہیں۔
بھارت پر ایک بار پھر امریکی ٹیرف میں اضافہ
پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کا موقف؟
پاکستان کی حکومت کی جانب سے اس بیان پر کوئی سرکاری تبصرہ سامنے نہیں آیا، مگر پاکستان نے ماضی میں معاہدات ابراہیمی کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے واضح مؤقف اختیار کیا تھا کہ اسرائیل سے تعلقات فلسطین کے مکمل حل سے مشروط ہیں۔
اسی طرح ترکی، ملیشیا، انڈونیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک نے بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے میں محتاط رویہ اختیار کیا ہے، اور ممکن ہے کہ ٹرمپ کی یہ نئی مہم بھی انہیں قائل نہ کر سکے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری صلاحیت کے خاتمے کا دعویٰ اور عرب ممالک کو اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کی ترغیب ایک بار پھر مشرق وسطیٰ کی سیاست میں نئی بحث کا آغاز کر سکتی ہے۔ تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ان کے یہ دعوے کتنے سچے ہیں اور خطے میں امن کے لیے واقعی مثبت ثابت ہوں گے یا نہیں۔ دنیا کو اب ان دعوؤں کے پیچھے چھپے حقائق جاننے کے لیے مزید شواہد اور ردعمل کا انتظار ہے۔
READ MORE FAQs”
کیا ایران کی جوہری طاقت واقعی تباہ ہو چکی ہے؟
بھی تک کسی بین الاقوامی ادارے نے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی، اور IAEA کی رپورٹس اس دعوے کے خلاف ہیں۔
معاہدات ابراہیمی کیا ہیں؟
یہ ایک سلسلہ ہے جس کے تحت عرب ممالک نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کیے، ابتدا میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان شامل تھے۔
ٹرمپ کے اس بیان کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق یہ بیان آئندہ امریکی انتخابات کی مہم کے تناظر میں ایک سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔
کیا پاکستان اسرائیل سے تعلقات قائم کرے گا؟
پاکستان نے واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل سے مشروط ہیں۔
اس بیان سے مشرق وسطیٰ میں کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
اگر عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات بڑھاتے ہیں تو خطے میں کشیدگی اور طاقت کا توازن متاثر ہو سکتا ہے۔