اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب سے ذاتی طور پر رابطہ کیا ہے۔
یہ رابطہ اس خط کے بعد کیا گیا جو عمر ایوب نے چیف جسٹس کو موجودہ عدالتی رویے کے خلاف تحریر کیا تھا۔ خط میں انہوں نے عدالتوں کے طرزِ عمل کو جمہوریت کے لیے خطرہ قرار دیا تھا اور عدالتی اصلاحات پر زور دیا تھا۔
ذرائع کے مطابق چیف جسٹس نے عمر ایوب سے ملاقات کے لیے کہا کہ وہ اسلام آباد آ کر ملاقات کریں، تاہم عمر ایوب نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ اسلام آباد آئے تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا اور پھر وہ واپس نہیں جا سکیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملاقات کے لیے دوسرا ممکنہ مقام کیا ہو سکتا ہے؟ جس پر عمر ایوب نے پشاور میں ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ چیف جسٹس نے اس تجویز پر آمادگی ظاہر کی اور ملاقات طے کرنے کی کوشش جاری ہے۔
قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب کا کہنا ہے کہ نو مئی کے مقدمات میں انصاف کا قتل عام ہو رہا ہے، دہشت گردی کی عدالتیں راتوں کو مقدمات نمٹا رہی ہیں، ملزمان کو اپنے وکیل کا حق بھی نہیں دیا جا رہا، اور میڈیا کو کوریج سے روکا جا رہا ہے۔ انہوں نے ان تمام اقدامات کو شفاف ٹرائل کے اصولوں کے منافی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا کام طاقتوروں کی مدد یا انتقامی کارروائیوں کا حصہ بننا نہیں بلکہ آئین و قانون کے تحت غیر جانبدار انصاف فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے خط میں مطالبہ کیا تھا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں، پولیس اور پراسیکیوشن کی بے ضابطگیوں پر فوری عدالتی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ عدلیہ پر عوام کا اعتماد بحال ہو اور انصاف کا عمل حقیقی معنوں میں آزاد اور شفاف بنایا جا سکے۔