یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش – 30 ارب روپے کا بڑا فیصلہ
یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش: حکومت کا 30 ارب 21 کروڑ روپے کا ضمنی بجٹ، سیورنس پیکیج، اور مستقبل کی حکمت عملی
پاکستان میں یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن (USC) کا قیام عوام کو روزمرہ کی اشیائے ضروریہ سستے داموں فراہم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ کئی دہائیوں تک یہ ادارہ عوامی فلاح کا ایک مؤثر ذریعہ رہا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انتظامی ناکامیوں، کرپشن، گوداموں کے مسائل، اور مالی بوجھ نے اس ادارے کی افادیت کو محدود کر دیا۔ حکومت نے اب اس کے بند ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے 30 ارب 21 کروڑ روپے کا ضمنی بجٹ منظور کیا ہے تاکہ اس عمل کو منظم، شفاف اور ہمدردی کے ساتھ مکمل کیا جا سکے۔
حکومت کا فیصلہ: معاشی دباؤ اور انتظامی اصلاحات کا امتزاج
حالیہ اقتصادی صورتحال، بجٹ خسارہ، اور سرکاری اداروں پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز کو بند کرنے کا مشکل مگر ضروری فیصلہ کیا ہے۔ اس بندش کے تحت:
ملازمین کو مکمل سیورنس پیکیج دیا جائے گا۔
تمام واجبات اور قانونی معاوضے ادا کیے جائیں گے۔
اثاثوں اور جائیدادوں کو فروخت کر کے حاصل ہونے والی رقم سے بندش کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔
اس عمل کو شفاف اور منظم انداز میں مکمل کرنے کے لیے وزارت صنعت و پیداوار کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
سیورنس پیکیج اور ملازمین کا مستقبل
یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے ملک بھر میں ہزاروں ملازمین تعینات ہیں۔ ان کی روزی روٹی اس ادارے سے وابستہ رہی ہے۔ بندش کے دوران حکومت نے ان ملازمین کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ ان کے لیے:
خدمات کے دورانیے کے مطابق مالی معاوضہ دیا جائے گا۔
ریٹائرمنٹ کے قریب ملازمین کو بہتر مراعات دی جائیں گی۔
ملازمین کو دیگر سرکاری یا نجی اداروں میں روزگار کے متبادل مواقع فراہم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
یہ ایک اہم پیش رفت ہے جو ریاست کی فلاحی ذمہ داری کو ظاہر کرتی ہے۔
اثاثوں کی فروخت اور آمدنی کا استعمال
ای سی سی (اقتصادی رابطہ کمیٹی) کے حالیہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ:
یوٹیلٹی اسٹورز کے پاس موجود اثاثے اور جائیدادیں موجودہ مالی سال میں فروخت کی جائیں گی۔
ان اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق فروخت کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ قومی خزانے کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔
حاصل ہونے والی آمدنی کو بندش کے اخراجات پورے کرنے اور سیورنس پیکج کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
یہ ایک معاشی حکمت عملی ہے جس کا مقصد سرکاری وسائل کا بہتر استعمال اور خسارے میں جانے والے ادارے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
وزارت صنعت و پیداوار کی ذمہ داریاں
یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش ایک پیچیدہ اور حساس عمل ہے جس میں عوامی جذبات، ملازمین کے مسائل، اور قومی مفاد سب شامل ہیں۔ اس لیے وزارت صنعت و پیداوار کو درج ذیل اقدامات کی ہدایت دی گئی ہے:
مالی ضروریات کو مزید کم کرنے کے لیے متبادل تجاویز پیش کرنا۔
اثاثوں کی فروخت کے لیے ٹرانسپیرنٹ طریقہ کار اختیار کرنا۔
بندش کے عمل کو مرحلہ وار اور منظم انداز میں آگے بڑھانا۔
سیورنس پیکج کی ادائیگی میں کسی تاخیر سے بچنے کے لیے فنڈز کی فوری دستیابی یقینی بنانا۔
شفافیت اور احتساب: حکومت کی اولین ترجیح
کمیٹی نے واضح ہدایت کی ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش کا پورا عمل:
شفاف، قابل نگرانی، اور عوام کے سامنے جواب دہ ہونا چاہیے۔
کسی بھی قسم کی بے ضابطگی یا کرپشن کو سختی سے روکا جائے۔
اگر ممکن ہو تو آزاد آڈیٹرز یا تھرڈ پارٹی کی نگرانی بھی عمل میں لائی جائے۔
اس سے نہ صرف عوامی اعتماد بحال ہو گا بلکہ دیگر سرکاری اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے بھی ایک نظیر قائم ہو گی۔
عوام کے لیے متبادل اقدامات
یوٹیلٹی اسٹورز بند ہونے کے بعد ایک بڑا سوال یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقے کے لیے سستی اشیائے ضروریہ کیسے فراہم کی جائیں گی؟ حکومت اس حوالے سے بھی درج ذیل اقدامات پر غور کر رہی ہے:
سبسڈی کا ہدفی نظام متعارف کرایا جائے گا تاکہ صرف مستحق افراد کو فائدہ پہنچے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ذریعے اشیائے خوردونوش کی خریداری کے لیے رقم فراہم کی جا سکتی ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر کو انگیج کر کے عوامی فلاح کی خدمات کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔
سیاسی اور سماجی اثرات
یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش کا فیصلہ معاشی مجبوریوں کے تحت کیا گیا ہے، مگر اس کے سیاسی اور سماجی اثرات سے انکار ممکن نہیں۔ عوامی ردعمل، اپوزیشن کی تنقید، اور میڈیا کی رپورٹنگ اس فیصلے کو مرکزی سیاسی مسئلہ بھی بنا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ:
موثر ابلاغ کے ذریعے عوام کو اعتماد میں لے۔
یوٹیلٹی اسٹورز کی ناکامی کی وجوہات اور بندش کی ناگزیر وجوہات پر واضح بیانیہ پیش کرے۔
آئندہ فلاحی اقدامات کا روڈمیپ عوام کے سامنے رکھے تاکہ غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔
اصلاحات کی راہ پر ایک بڑا قدم
یوٹیلٹی اسٹورز کی بندش ایک دور کا اختتام اور نئے دور کی شروعات ہے۔ یہ اقدام اگرچہ فوری طور پر تکلیف دہ لگ سکتا ہے، لیکن طویل مدت میں یہ فیصلہ ملک کے مالیاتی ڈھانچے کو مضبوط بنانے، وسائل کے مؤثر استعمال، اور گڈ گورننس کی جانب پیش رفت کی علامت بن سکتا ہے۔
حکومت کی جانب سے 30 ارب 21 کروڑ روپے کا ضمنی بجٹ، سیورنس پیکیج، اور اثاثوں کی فروخت کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست اپنے فرائض سے غافل نہیں۔ اب یہ عمل کس قدر شفاف، منصفانہ، اور موثر انداز میں مکمل ہوتا ہے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ مگر اگر وعدے عملی صورت اختیار کر لیں تو یہ بندش ایک مثبت تبدیلی کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔
