پاکستان میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان
وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے حالیہ وفاقی کابینہ اجلاس کے دوران ملک میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ فیصلہ حالیہ شدید بارشوں اور سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر کیا گیا تاکہ زرعی زمینوں اور متاثرہ علاقوں کو بروقت ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی زد میں ہے، اور یہی وجہ ہے کہ حکومت نے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے کی ضرورت محسوس کی۔
وفاقی کابینہ کا اجلاس اور فیصلے
بدھ کے روز اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزراء نے حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں فوری طور پر زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی (Agricultural and climate emergency) نافذ کی جائے تاکہ کسانوں اور عوام کو فوری ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
زرعی نقصانات کی تفصیل
سیلابی پانی نے ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ خاص طور پر پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع میں دھان، کپاس اور مکئی کی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ متاثرہ علاقوں میں کسان اپنی سال بھر کی محنت سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں وزیراعظم نے ہدایت کی کہ فوری طور پر زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے تحت کسانوں کو سبسڈی، بیج اور کھاد فراہم کی جائے۔
موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے اور پاکستان اس کے شدید اثرات جھیل رہا ہے۔ سیلاب، گلیشیئرز کا پگھلنا اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن معیشت کے ساتھ ساتھ کسانوں کی زندگی پر بھی براہ راست اثر ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی ایک وقتی اقدام نہیں بلکہ مستقبل کے لیے بھی لائحہ عمل تیار کرنے کا موقع ہے۔
مستقبل کا روڈ میپ
وزیراعظم نے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو اجلاس میں شامل کرنے کا اعلان کیا تاکہ مشترکہ حکمتِ عملی بنائی جا سکے۔ اس روڈ میپ میں درج ذیل اقدامات شامل ہوں گے:
- متاثرہ علاقوں میں ہنگامی بنیادوں پر امداد کی فراہمی
- زرعی زمینوں کی بحالی
- فصلوں کے نقصانات کا درست تخمینہ
- کسانوں کو مالی معاونت
- موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے لیے جدید پالیسیز
یہ تمام اقدامات زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے تحت کیے جائیں گے تاکہ پاکستان آئندہ قدرتی آفات کے لیے بہتر طور پر تیار ہو سکے۔
انفراسٹرکچر کی بحالی
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں سڑکیں، پل اور نہری نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ فوری طور پر انفراسٹرکچر کی بحالی پر کام شروع کرنا ضروری ہے تاکہ زراعت کا نظام بحال ہو سکے۔ وزیراعظم نے کہا کہ زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے تحت ان منصوبوں کو اولین ترجیح دی جائے۔
کسانوں کی معاونت اور سبسڈی
پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ اگر کسان مضبوط نہیں ہوں گے تو ملک کی خوراکی ضروریات پوری نہیں ہو پائیں گی۔ اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا کہ متاثرہ کسانوں کو بیج، کھاد اور دیگر ضروریات پر سبسڈی دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ زرعی قرضوں کی واپسی میں آسانی بھی دی جائے گی۔ یہ سب اقدامات زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے تحت ہوں گے۔
عوامی ریلیف اقدامات
اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ گیس کنکشن کے منتظر صارفین کو آر ایل این جی کنکشن فراہم کیے جائیں تاکہ عوام کو سستی توانائی میسر آئے۔ اس اقدام سے عام صارفین کو ایل پی جی کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد کم لاگت پر گیس ملے گی۔ یہ اقدام بھی براہ راست عوامی ریلیف کے لیے زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے ساتھ منسلک ہے کیونکہ توانائی بحران زرعی پیداوار کو بھی متاثر کرتا ہے۔
قومی یکجہتی اور قربانیاں
اجلاس میں شہداء اور افواج پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز مواد کی مذمت کی گئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ شہداء کی قربانیوں کا احترام ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یہ پیغام بھی دیا گیا کہ زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی صرف ایک حکومتی اقدام نہیں بلکہ پوری قوم کی یکجہتی کا تقاضا ہے۔
عالمی سطح پر ردعمل
وزیراعظم نے دوحہ میں اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت کرتے ہوئے امیر قطر اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن، انصاف اور انسانی ہمدردی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس موقع پر بھی انہوں نے ذکر کیا کہ ماحولیاتی اور زرعی مسائل عالمی تعاون کے بغیر حل نہیں ہو سکتے، اور اسی لیے زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ پاکستان دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہم سنجیدہ ہیں۔
پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ سیلابی تباہ کاریوں، موسمیاتی تبدیلیوں اور زرعی نقصانات نے عوام اور کسانوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ایسے میں وزیراعظم کا ملک میں زرعی اور موسمیاتی ایمرجنسی نافذ کرنا ایک اہم فیصلہ ہے۔ یہ اقدام نہ صرف موجودہ صورتحال کو سنبھالنے میں مدد دے گا بلکہ مستقبل کے لیے بھی پالیسی سازی کا باعث بنے گا۔
بلاول بھٹو کا کسانوں کے بجلی بل معاف کرنے کا مطالبہ اور زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ
