پشاور ہائیکورٹ کا حکم: گورنر فیصل کریم کنڈی کل سہیل آفریدی سے حلف لیں
پشاور ہائیکورٹ کا گورنر خیبرپختونخوا کو حکم: "نو منتخب وزیر اعلیٰ سے فوراً حلف لیں”
پاکستان میں جمہوریت اور آئینی عمل کے تسلسل کے لیے عدالتیں ہمیشہ ایک کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہیں۔ حالیہ دنوں خیبرپختونخوا میں پیدا ہونے والی ایک آئینی الجھن پر پشاور ہائیکورٹ نے بروقت اور دوٹوک فیصلہ سنایا ہے، جس میں گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نو منتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی سے فوری طور پر، یعنی بدھ کے روز شام 4 بجے حلف لیں۔ عدالت نے متبادل بھی دیا ہے: اگر گورنر کسی بھی وجہ سے حلف نہیں لیتے، تو اسی دن اسمبلی کے اسپیکر نومنتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لیں۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب نومنتخب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری میں تاخیر، آئینی ابہام اور سیاسی کشیدگی کا باعث بنی ہوئی تھی۔
پس منظر: معاملہ کیسے عدالت تک پہنچا؟
خیبرپختونخوا اسمبلی میں حالیہ انتخابات کے بعد سہیل آفریدی کو اکثریت حاصل ہونے پر وزیر اعلیٰ منتخب کر لیا گیا۔ مگر حیرت انگیز طور پر گورنر خیبرپختونخوا کی جانب سے ان سے حلف نہ لینے کی خبریں گردش کرنے لگیں، جس کے نتیجے میں سیاسی اور آئینی بحران نے جنم لیا۔ اس صورتحال پر ایک شہری نے عدالت سے رجوع کیا اور درخواست دائر کی کہ گورنر کو آئینی ذمہ داری پوری کرنے کا حکم دیا جائے۔
عدالت نے درخواست پر تفصیلی سماعت کی، جس کی سربراہی چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے کی۔ اس موقع پر وفاق کی نمائندگی ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کی، جبکہ گورنر کی قانونی نمائندگی عامر جاوید ایڈووکیٹ نے سنبھالی۔
سماعت کی تفصیلات اور عدالت کے سوالات
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گورنر فیصل کریم کنڈی اس وقت ایک سرکاری دورے پر ہیں اور وہ کل (بدھ) دوپہر 2 بجے واپس آ جائیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے فوری سوال کیا:
"گورنر نے نومنتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے پر رضامندی ظاہر کی ہے یا نہیں؟”
ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس سوال کا براہِ راست جواب نہ دے سکے اور کہا:
"گورنر کے واپس آنے پر وہ خود فیصلہ کریں گے۔”
گورنر کے وکیل عامر جاوید نے عدالت کو بتایا کہ:
"گورنر نے عامر جاوید کو دلائل کے لیے نامزد کیا ہے، اور چونکہ وہ کل تک واپس آ رہے ہیں، اس لیے انتظار کیا جائے۔ سب آئینی عمل مکمل ہو جائے گا۔”
عدالت نے اس مؤقف کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سخت سوالات اٹھائے، اور واضح کیا کہ:
"یہ معاملہ کسی رسمی یا سیاسی فیصلے کا نہیں، بلکہ ایک آئینی ذمہ داری کا ہے، جس میں تاخیر آئینی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتی ہے۔”
عدالت کا فیصلہ: آئین بالاتر ہے
عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا اور کچھ ہی دیر میں تفصیلی حکم جاری کرتے ہوئے کہا:
"گورنر خیبرپختونخوا بدھ کے روز شام 4 بجے نومنتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی سے حلف لیں۔ اگر گورنر کسی بھی وجہ سے حلف نہیں لیتے، تو اسمبلی کے اسپیکر اسی وقت وزیر اعلیٰ سے حلف لیں گے۔”
یہ حکم نہ صرف واضح تھا بلکہ آئینی اصولوں کی مکمل پاسداری کا عکاس بھی تھا۔ عدالت نے کہا:
"ایسا صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب الیکشن نہ ہوا ہو۔ یہاں باقاعدہ انتخابی عمل مکمل ہو چکا ہے، مختلف جماعتوں نے امیدوار کھڑے کیے، اور سہیل آفریدی اکثریتی ووٹ لے کر منتخب ہوئے ہیں۔ اب اس عمل کی تکمیل حلف برداری سے ہی ممکن ہے۔”
قانونی ماہرین کا تجزیہ
قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ نہایت اہم ہے، کیونکہ پاکستان کے آئین کے تحت منتخب وزیر اعلیٰ سے گورنر کو بلا تاخیر حلف لینا ہوتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت، جب اسمبلی کسی رکن کو وزیر اعلیٰ منتخب کرے، تو گورنر کو آئینی طور پر فوری طور پر اس سے حلف لینا لازم ہوتا ہے۔
ماہر قانون بیرسٹر شہریار خان نے کہا:
"گورنر کے حلف نہ لینے کا کوئی آئینی جواز نہیں۔ اس میں تاخیر کرنا یا ذاتی یا سیاسی وجوہات کی بنیاد پر انکار کرنا آئینی خلاف ورزی ہو گی۔ پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک نظیر بنے گا کہ ریاستی عہدے داروں کو آئین کے تابع ہونا چاہیے، نہ کہ پارٹی یا ذاتی وفاداریوں کے تابع۔”
سیاسی ردعمل اور عوامی رائے
پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ردعمل سامنے آیا ہے۔ اکثریتی جماعت کے رہنماؤں نے اس فیصلے کو "جمہوریت کی فتح” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
"گورنر کا حلف نہ لینا منتخب حکومت کو روکنے کی کوشش تھی۔ عدالت نے بروقت مداخلت کر کے آئینی عمل کو تحفظ دیا ہے۔”
دوسری جانب، اپوزیشن جماعتوں نے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، مگر حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اتفاق رائے کی فضا قائم کرے تاکہ آئندہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔”
عوامی سطح پر بھی اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر شہریوں کی بڑی تعداد نے عدلیہ کے فیصلے کو "مثبت قدم” قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ آئندہ ایسے واقعات میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔
اگر گورنر حکم عدولی کریں تو؟
ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر گورنر عدالت کے واضح حکم کے باوجود حلف نہ لیں، تو کیا ہوگا؟ قانونی ماہرین کے مطابق، عدالت نے اسی امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ میں متبادل راستہ فراہم کیا ہے۔ اسمبلی کا اسپیکر وزیر اعلیٰ سے حلف لے سکتا ہے، جیسا کہ آئین کے تحت ممکن ہے۔
اگر گورنر حکم عدولی کرتے ہیں تو یہ توہین عدالت کے زمرے میں آئے گا، اور گورنر کے خلاف آئینی و عدالتی کارروائی بھی ممکن ہو سکتی ہے۔
عدلیہ کا آئین کی بالادستی پر مؤقف
پشاور ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ آئین سے بالاتر کوئی فرد یا عہدہ نہیں ہے۔ ریاستی امور کو سیاسی بنیادوں پر روکنے یا تاخیر میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے گورنر کے رویے کو سنجیدگی سے لیا اور محض باتوں یا وعدوں پر قناعت نہیں کی، بلکہ آئینی دائرے میں رہتے ہوئے بروقت اور مؤثر فیصلہ سنایا۔
اس فیصلے کے بعد خیبرپختونخوا میں سیاسی عمل کو استحکام حاصل ہونے کی امید ہے۔ سہیل آفریدی کی حلف برداری کے بعد نئی حکومت کی تشکیل ممکن ہو سکے گی، اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق حکمرانی کا عمل آگے بڑھ سکے گا۔
Comments 1